فون ٹیپنگ کا کوئی قانون موجود نہیں، جو ہو رہا ہے غیر قانونی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ

آڈیو لیکس کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے چیمبر میں سماعت کی استدعا مسترد کردی۔
بشریٰ بی بی اور نجم الثاقب کی آڈیو لیکس کے خلاف درخواستوں پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے کی، جس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے عدالت کوبتایا کہ وزارتِ داخلہ نے ایک ایس او پی جاری کیا، آئی ایس آئی اور آئی بی براہ راست سروس پرووائیڈرز سے ڈیٹا لے سکتی ہیں۔ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ضرورت پڑنے پر ان ایجنسیز سے ڈیٹا لے سکتے ہیں۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ یہ ایس او پی تو ایک سیکشن افسر نے جاری کیا ہے، متعلقہ اتھارٹی کا ذکر نہیں۔ وزارتِ داخلہ کے پاس یہ اختیار کیسے ہے، کس قانون کے تحت یہ ایس او پی جاری کیا گیا؟ وارنٹ کے بغیر لائیو لوکیشن کیسے شیئر کی جا سکتی ہے؟ حکومت نے کس قانون کے تحت فیصلہ کیا کہ یہ ڈیٹا حاصل کر سکتے ہیں؟ وزارتِ داخلہ کے ایک سیکشن افسر نے ایس او پی جاری کر دیا، سیکشن افسر کے ایس او پی کے تحت آپ ڈیٹا حاصل کرتے ہیں، آپ نے فون ٹیپنگ سے متعلق نہیں بتایا جو چیزیں بتائی ہیں یہ اُن میں نہیں آتا، ابھی اس دستاویز کی قانونی حیثیت بھی دیکھنی ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ لاپتا فرد کے کیس میں سندھ ہائیکورٹ نے ڈیٹا خفیہ اداروں کو دینے کی ہدایت کی تھی، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک کیس کی حد تک تھا یا مستقل ؟ عدالت نے ایڈیشنل جنرل کو ہدایت کی کہ آپ نے 2013 میں کیا پالیسی بنائی وہ پڑھیں ۔ کیا اس پالیسی کے میکنزم کے مطابق آپ ڈیٹا لیتے رہے ہیں ؟، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی ایسا ہی ہے۔
دورانِ سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ پی ٹی اے کس بنیاد پر ڈائریکشن پاس کر رہا ہے ؟، جس پر پی ٹی اے کے وکیل نے جواب دیا کہ سندھ ہائیکورٹ کے سامنے ایک معاملہ ہے تو پی ٹی اے سمیت تمام فریقین کو بلا کر میکنزم بنوایا گیا ۔ وہ فیصلہ چیلنج نہیں ہوا اور 2013 کی پالیسی بنی ۔ عدالت نے ہدایت کی کہ اُس فیصلے میں اِس طرح نہیں، آپ وہ پڑھیں ۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی اے نے کسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دی ؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ جی ہم نے کسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دی۔ پی ٹی اے سرویلینس نہیں کررہی۔ پی ٹی اے ریگولیٹر ہے۔ مصطفی ایپکس کے بعد کوئی بھی ڈویژن ہمیں لکھتا ہے تو ہم یہی سمجھتے ہیں وفاقی حکومت کا فیصلہ ہے۔
اسلام آباد پولیس کے وکیل نے عدالت میں بتایا کہ ہماری سمجھ کے مطابق یہ میٹریل لینے پر پابندی نہیں، جس پر جسٹس بابر ستار نے پوچھا کہ کیا آپ بغیر وارنٹ کسی کے گھر جا سکتے ہیں ؟ ، وکیل نے جواب دیا کہ نا ہم سرویلینس کرتے ہیں نہ ہی کا ریکارڈ کرتے ہیں بلکہ وقوعہ ہونے کے بعد میٹریل لیتے ہیں۔ عدالت نے سوال کیا کہ 11 سال میں آپ نے کبھی وارنٹ لیے، جس پر وکیل نے بتایا کہ وقوعہ ہونے کے بعد میٹریل لینے کے لیے ہماری سمجھ کے مطابق وارنٹ لینا ضروری نہیں ۔