پاکستان

آڈیو لیکس کیس: ’غیر قانونی سرویلنس ایک جرم ہے جس کی قانون میں سزا موجود ہے‘ جسٹس بابر ستار

آڈیو لیکس کیس کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کا آغاز ہو چُکا ہے۔

بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس کے بیٹے نجم الثاقب کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس بابر ستار دونوں درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کر رہے ہیں۔ آج ہونے والی سماعت کے دوران ایڈشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔

آج سماعت کے آغاز پر عدالت کی جانب سے پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا گیا کہ ’آپ نے جواب جمع نہیں کروایا۔‘ جس کے جواب میں پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’چھٹی کے باعث ہم اپنا جواب داخل نہیں کرواسکے۔‘

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس بابر ستار نے جب سماعت کا آغاز کیا تو پی ٹی آئی کے وکیل کے ساتھ مختصر مکالمے کے بعد ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل روسٹرم پر آئے۔ جن سے عدالت کی جانب سے یہ سوال کیا گیا کہ ’قانون بتائیں کس قانون کے تحت پی ٹی اے سرویلینس کر رہے ہیں؟ کس سیکشن کے تحت پی ٹی اے والے سرویلینس کر رہے ہیں۔‘

جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’لیگل فریم ورک کے ذریعے کر رہے۔‘

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے اس جواب پر جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کے مطابق کسی کو فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دی گئی۔ اگر آپ اب اس موقف سے پیچھے ہٹیں گے تو اس کے نتائج ہوں گے۔‘

عدالت کی جانب سے دورانِ سماعت کہا گیا کہ ’قانون کہتا ہے کہ وفاقی حکومت اجازت دے سکتی ہے مگر آپ کے مطابق اس کی اجازت نہیں دی گئی۔‘

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’مجھے تھوڑا سا ٹائم دے دیں۔‘

جس پر استفسار کرتے ہوئے جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا کہ ’کیا آپ کو نہیں پتہ تھا کہ آج کیس لگا ہوا ہے؟ ایک سال سے یہ پٹیشنز زیرِ سماعت ہیں۔ اگر وفاقی حکومت عدالت میں جھوٹ بولے گی تو بات کیسے آگے بڑھے گی۔ وزیراعظم آفس سمیت دیگر اداروں کی جانب سے رپورٹس جمع کرائی جا چکی ہیں۔‘

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیتے ہوئے مزید کہا کہ ’رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ کسی کو لیگل انٹرسیپشن کی اجازت نہیں دی گئی۔‘

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’وہ جواب پٹیشنر کی آڈیو لیکس کی حد تک تھا۔‘

جس پر عدالت کی جانب سے ایک مرتبہ پھر ایڈیشنل اٹارنی جنرل یہ سوال کیا گیا کہ ’جو بھی ہے آپ بتائیں شہریوں کی کالز کس قانون کے تحت آپ ریکارڈ کر رہے ہیں۔ زبانی کلامی نہ بتائیں باضابطہ طور پر بتائیں، آپ بتائیں آپ نے کس کو اجازت دے رکھی ہے۔ کس نے اتھارٹی دی ہوئی ہے کہ لوگوں کی کالز ریکارڈ کی جائیں۔‘

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’وزیر اعظم آفس، وزارتِ دفاع، داخلہ، پی ٹی اے کہہ چکے کسی کو اجازت نہیں ہے۔ غیر قانونی سرویلنس ایک جرم جس کی قانون میں سزا موجود ہے۔‘

جواب دیں

Back to top button