آپا منزہ جاویدآج کے کالم

ہمارا قبلہ اول

آپا منزہ جاوید

مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول اور خانۂ کعبہ اور مسجدِ نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے ، مسجدِ اقصی حقیقت میں مسلمانوں کی میراث ہے ، جو تاریخی اور مذہبی حقائق سے ثابت ہے ، مگر یہ جس جگہ پر تعمیر کی گئی،( ی ہ و د ) کے موقف کے مطابق اِس جگہ پر پہلے سُلیمانی ہیکل تھی ، مُسلمانوں کے یروشلم شہر پر قبضہ کرنے کے بعد یہ مسجد تعمیر کی گئی ، حالانکہ قرآن میں سفرِ معراج کے باب میں اس مسجد کا ذکر ہے ، گویا یہ مسجد رسول اللہ ﷺ کے بعثت سے بھی پہلے موجود تھی۔متعدد روایات کے مطابق خانۂ کعبہ کے بعد دوسری عبادت گاہ الاقصٰی تعمیر ہوئی تھی ، مسجد کا تعلق اللہ تعالیٰ کی عبادت سے ہے اور ہر نبی کو عبادت کے لیے مسجد کی ضرورت تھی ، یہاں تک درست ہے کہ موجودہ دور میں اس مسجد کی معروف نسبت حضرتِ سلیمان علیہ السلام کے ساتھ ہے ، حتیٰ کہ ایک روایت کے مطابق اس مسجد کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات سے تعمیر کرایا ، لیکن اسے کلیتہً ہیکلِ سلیمانی قرار دینا تاریخی اعتبار سے غلط ہے ۔ہیکل کا لفظ رہائش گاہ ، محل یا دربار کے لیے استعمال ہوتا ہے ، گمان غالب ہے کہ نبی اللہ سلیمان علیہ السلام نے اپنی رہائش کا حجرہ بھی مسجد میں ہی بنا رکھا اور اپنے متبعین کا اجتماع بھی مسجد میں ہی کرتے ہوں ، اس لحاظ سے اس مسجد کو ہیکل سلیمانی یعنی سلیمان علیہ السلام کا محل یا دربار کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہو ، حالانکہ یہ مسجد فی الواقع زمین پر دوسری تعمیر ہونے والی مسجد ہے۔مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یا حرم قدسی شریف (عربی: الحرم القدسی الشریف) کہتے ہیں ، یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے ، جس پر (اس را ئ یل) کا قبضہ ہو گیا تھا ، یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے ، جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے ، جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔
مسجد اقصیٰ کی اہمیت: آپ ﷺ سفرِ معراج کے دوران مسجدِ حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجدِ اقصیٰ میں تمام انبیا کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے ، جن میں مسجدِ الحرام ، مسجدِ اقصٰی اور مسجدِ نبوی شامل ہیں۔سیدنا ابوذر سے مروی ہے کہ ” میں نے رسول اکرم ﷺ سے پوچھا کہ زمین پرسب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مسجدِ الحرام ( بیت اللہ ) تو میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسی ہے ؟ تو نبی کریم ﷺ فرمانے لگے : مسجدِ اقصیٰ ، میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ چالیس سال ، پھرجہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 3366 ، صحیح مسلم حدیث نمبر 1161)مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت کے بعد 16 سے 17 ماہ تک مسلمان مسجدِ اقصٰی کی جانب رخ کر کے ہی نماز ادا کرتے تھے ، پھر تحویلِ قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانۂ کعبہ قرار پایا۔
مسلم تعمیرات: جب سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو سیدنا عمرؓ نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا ، جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔ مسجدِ اقصٰی سے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے یہی مسجد بعد میں مسجدِ اقصٰی کہلائی ، کیونکہ قرآنِ مجید کی سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجدِ اقصٰی کہا گیا ہے ، اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغِ اسلام اور اشاعتِ دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ مسجدِ اقصٰی کا بانی حضرتِ یعقوب علیہ السلام کو مانا جاتا ہے اور اس کی تجدید حضرتِ سلیمان علیہ السلام نے کی ، بعد میں خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجدِ اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی ، عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب (ع ی س ا ئ ی و ں) کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجدِ اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا ، مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا ، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا ، سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجدِ اقصٰی کو (ع ی س ا ئ ی و ں) کے تمام نشانات سے پاک کیا ، محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔
مسجدِ اقصیٰ و قبۃ الصخرۃ: مسجدِ اقصی کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا ، جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبۃ الصخرۃ ہے ، جو اسلامی طرزِ تعمیر کے شاندار نمونوں میں شامل ہے ، تاہم آج کل یہ نام حرم کے جنوبی جانب والی بڑی مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ وہ مسجد جو نماز کی جگہ ہے ، وہ قبۃ الصخرۃ نہیں ، لیکن آج کل قبہ کی تصاویر پھیلنے کی بنا پر اکثر مسلمان اسے ہی مسجدِ اقصیٰ خیال کرتے ہيں ، حالانکہ فی الواقع ایسی کوئی بات نہیں ، مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ میں اور قبہ صحن کے وسط میں ایک اونچی جگہ پر واقع ہے۔
سانحۂ بیت المقدس: 21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی (ی ہ و د ی) ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگا دی ، جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ شہیدہوگیا ، محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہو گیا ، جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب گیا تھا ، صلاح الدین ایوبی نے قبلۂ اول کی آزادی کے لیے قریباً 16جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تا کہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کریں۔ اس المناک واقعہ کے بعد خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کی آنکھ ایک لمحے کے لیے بیدار ہوئی اور سانحے کے قریباً ایک ہفتے بعد اسلامی ممالک نے موتمر عالم اسلامی (او آئی سی) قائم کر دی ، تاہم 1973ء میں لاہور میں ہونے والے دوسرے اجلاس کے بعد سے 56 اسلامی ممالک کی یہ تنظیم غیر فعال ہو گئی۔ (ی ہ و د ی) اس مسجد کو ہیکلِ سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گرا کر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں ، حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کر سکے کہ ہیکلِ سلیمانی یہیں تعمیر تھا۔
امتِ مسلمہ کا فرض: ان حالات میں جہاں اُمتِ مسلمہ کے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ اپنے مقاماتِ مقدسہ کا شعور رکھے ، ان پر ہونے والی جارحیتوں سے آگاہ ہو تاکہ وہ امہ کا ایک فرد ہونے کے ناطے اپنے اوپر عائد شرعی ذمہ داری سے عہدہ برا ہو سکے اور اس فرض کی ادائیگی میں اپنا حصہ ڈال سکے ، وہاں مسلم اُمہ کے قائدین کا یہ براہِ راست فرض بنتا ہے کہ وہ مخالف کو سنگین جارحیت سے باز رکھنے کے لیے ہر ممکنہ اقدام بروئے کار لائیں۔ مسلمانوں کا قبلہ اوّل اور بیت اللہ کے بعد تعمیر ہونے والا دوسرا مبارک ترین اللہ کا گھر (ص ہ و ن ی و ں) کی سازشوں کے نرغے میں ہے ، سلطان ایوبی نے تو اس وقت تک چین سے نہ بیٹھنے کی قسم کھائی تھی ، جب تک وہ بیت المقدس کو (ع ی س ا ئ ی و ں) کے تسلط سے آزاد نہ کرا لیں۔ اُسی اُمتِ مسلمہ کے فرزند آج کئی برس گزرنے کے بعد بھی نہ صرف مطمئن و پرسکون ہیں ، بلکہ آہستہ آہستہ کوتاہی اور مداہنت یوں اپنا اثر دکھا رہی ہے کہ مسلمانوں میں بعض ایسے کرما فرما بھی پیدا ہوگئے ہیں ، جو مسجدِ اقصیٰ کو اسی طرح (ی ہ و د) کی تولیت میں دے دینے کے داعی ہیں ، جیسے مسلمانوں کے پاس بیت الحرام کی تولیت ہے۔(اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَ)اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ذمہ عائد فریضے کو ادا کرنے کی قوت عطا فرمائے۔

جواب دیں

Back to top button