آج کے کالما شرف آصفؔ جلالی

سانحۂ مستونگ

ڈاکٹر محمد ا شرف آصفؔ جلالی

عید ہو، جلسہ ہو، آنا جانا ہو کوئی موقع نہیں یہاں محفوظ
ہائے ہم بے سہارا اہل سنت مال محفوظ ہے، نہ جاں محفوظ

پوری دنیا کی طرح بلوچستان میں بھی عاشقان رسول ﷺ ربیع الاول شریف میں خصوصی طور پر جشن عید میلاد النبی ﷺ اور محافل میلاد کا اہتمام کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے خاطر خواہ سکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے اس بار مستونگ میں جو سانحہ ہوا ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ سانحہ سے پہلے جلوس کی سکیورٹی کے لحاظ سے اور بعد میں شہداء کے ورثاء اور زخمیوں کے مسائل کو حل کرنے میں حکومتی بری طرح ناکام رہی ہے بلکہ مظلوم متاثرین کی اشک شوئی کرنے کا بھی حکومت کی طرف سے کوئی اہتمام سامنے نہیں آیا۔ بندہ اس کالم کے ذریعے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جناب قاضی فائز عیسیٰ کی توجہ سانحہ مستونگ کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہے اور ان سے داد رسی کا طلبگار ہے۔ مجھے ان سے امید واثق ہے کہ سانحہ مستونگ کے ایک صد شہداء اور تین صد زخمیوں کے لیے اپنے منصب اور اختیار کے مطابق ضرور خصوصی اور ترجیحی تعاون کریں گے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ 8 اگست کو جب سول ہسپتال کوئٹہ میں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی پر حملے کے بعد میں وکلاء ہسپتال میں اکھٹے ہوئے تھے ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں خود کش حملہ آور نے حملہ کر دیا اور آناً فاناً سب کے چیتھڑے اڑا دیے اور پل بھر میں ہسپتال کو مقتل بنا دیا۔ اس دل دہلا دینے والے سانحہ پر آپ نے شہید وکلاء کے ورثا کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے ایک خط تحریر کیا جو واقعی طور پر سانحہ کے متاثرین کے لیے ایک مرہم تھا اور ایک ایک لفظ درد و سوز میں گوندھا ہوا تھا۔ پھر اس سانحہ کے لیے انکوائری کمیشن بنا اور آپ کو اس کا سربراہ بنایا گیا۔ کمیشن نے کئی رکاوٹوں کے باوجود تمام متعلقہ اداروں کا مؤقف معلوم کرنے کے بعد اپنی رپورٹ جاری کی تو اس میں حملہ آوروں کے نام، پتے اور اس جگہ کی تصویریں بھی شامل کر دی گئیں جہاں بیٹھ کر منصوبہ اور بم بنایا گیا۔ رپورٹ میں قرآنی آیات کا حوالہ دے کر کہا گیا کہ حملہ آوروں نے بے گناہ انسانوں کا خون بہا کر اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کی۔ ایسا لگتا تھا کہ واقعی شہداء کا خون آپ کے قلم میں اتر آیا ہے۔
آپ ملک پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہیں۔ آپ کے عہدِ انصاف میں بلوچستان کی سر زمین ایک دفعہ پھر لہو لہو ہے۔ 12 ربیع الاول شریف 1445؁ھ یعنی 29 ستمبر 2023؁ء کے نہایت مقدس دن مستونگ میں تحریک صراط مستقیم تحریک لبیک اسلام کے صوبائی رہنماء استاذ العلماء مفتی محمد سعید احمد حبیبی شہید، پیر سید محمد اقبال شاہ اور مولانا شبیر احمد کی قیادت میں یہ جلوس مقام آغاز پر نکلنے کے لیے تیار تھا۔ مختلف قافلے آ کر اس میں شامل ہو چکے تھے۔ عوام کا جم غفیر تھا۔ عاشقان رسول ﷺ کے ہاتھوں میں گنبد خضریٰ والے پرچم تھے۔ لاؤڈ سپیکر پر نعت شریف کی آواز گونج رہی تھی۔ تکبیر و رسالت کے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ کیف ومستی کا سماں تھا۔بڑے خوشگوار موسم میں ہوا بھی جزبات میں تھی۔ غلامان رسول ﷺ اپنے آقا و مولیٰ ﷺ کے حضور درود و سلام کے نذرانہ پیش کرنے میں مصروف تھے۔ دس بج کر چالیس منٹ پر دھماکہ ہوا اور پل بھر میں شرکائے جلوسِ میلاد کے چیتھڑے فضاء میں اڑتے نظر آئے۔ ہر طرف انسانی اعضاء بکھر گئے۔ عقیدت و الفت کے چراغ جلانے والوں کے جسم خون میں لت پت ہو گئے۔ یہاں تک کہ بہت سی لاشوں کی پہچان مشکل ہو گئی۔ ایک ایک خاندان کے کئی جنازے تیار ہو گئے۔ ان شہیدوں میں ایک شہید وہ بھی ہے جو اپنے بیوی بچوں اور سات بہنوں کا واحد کفیل تھا اور جس کی کل کائنات چھوٹی چھوٹی دو جھونپڑیاں تھی ۔ یہ وہ پرامن لوگ تھے جن کے جلوس میں کسی درخت کا کوئی پتّا بھی نہیں گرایا جاتا۔ یہ درود والے تھے جنہیں بارود سے بھون دیا گیا۔
شہداء تو امر ہو گئے، زخمی صحت یاب ہو کر پھر غازی بن کر جشن عید میلاد النبی ﷺ میں آنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ شہداء کے ورثاء کے بھی حوصلے بلند ہیں مگر ظلم کی بیخ کنی ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ شہداء کے وارث اور زخمی دھکے کھاتے پھر رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ مظلوموں کی داد رسی کے لیے آپ کے اختیارات بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ اس سلسلہ میں خصوصی ایکشن لیں گے اور اس سلسلہ میں اتحادِ اہل سنت بلوچستان کے جو مطالبات ہیں وہ پورے کروانے میں کردار ادا کریں گے۔

جواب دیں

Back to top button