آج کے کالمعبدالرزاق باجوہ

مہنگائی سے غریب اور متوسط طبقے کا جینا مشکل

عبدالرزاق باجوہ

مختلف اخباری رپورٹس کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کا نصف صدی کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ مہنگائی سے عام غریب آدمی پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟شعبہ صحافت سے لے کر شعبہ تعلیم تک سب مزدور، محنت کش طبقہ اور محدود آمدنی والے چھوٹے سرکاری و نیم سرکاری اور پرائیویٹ ملازمین پر کیا بیت رہی ہے؟ یہ وہی جانتے ہیں اور ان کا خدا، کوئی ان کا پرسان حال نہیں ۔ مہنگائی قریباً 78فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ اشیائے خورو نوش کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ یوٹیلیٹی بل غریب لوگوں پر قیامت ڈھا رہے ہیں۔ ایک طرف بجلی مہنگی ہے تو دوسری طرف گیس اتنی زیادہ مہنگی ہو چکی ہے کہ لوگ ہر کہیں شدید پریشانی سے مضطرب دکھائی دے رہے ہیں، عوام کے لئے سُکھ کا سانس لینا حرام ہوچکا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ ڈالر کی قیمت کم ہو گئی ہے مگر اس کا عوام کو کیا فائدہ ہوا ہے، مہنگائی تو کم نہیں ہوسکی۔ عوام کو سُکھ چین سے زندگی گزارنے کے مواقع ناپید ہورہے ہیں۔ ہر سرمایہ کار بے خوف اور بے لگام ہو چکا ہے۔ ذخیرہ اندوزی سے لاکھوں لگا کر کروڑوں کمائے جاتے ہیں ۔ ادویات کے شعبے میں جتنی لوٹ مار گزشتہ برس کے عرصے میں مچی ہے،اُس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ایک دور تھا ادویات کی قیمتیں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی منظوری سے بڑھائی جاتی تھیں،اب ادویہ ساز کمپنیاں مادر پدر آزاد ہیں۔ جن کے پاس سٹاک ہوتا ہے وہ بلیک میں فروخت کرتے ہیں۔جب ہر طرف لوگ تنگ آکر شور مچاتے ہیں تو قیمت بڑھا کر مارکیٹ میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ اس لوٹ مار پر، کوئی ادارہ اس کا نوٹس نہیں لیتا۔ کسی کو قانون کا ڈر نہیں ،جس کا جہاں داؤ لگتا ہے، لگا رہا ہے۔ غریب عوام بے بسی کی حالت میں مہنگائی کی چکی تلے پس رہے ہیں۔ ڈالر کی سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی نے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا۔
ادارہ شماریات کی رپورٹ کاذرا سرسری جائزہ لیں جو دو جنوری کو قومی اخبارات میں شائع ہوئی، سال 2023 مہنگائی کے لحاظ سے بدترین رہا، گرانی نے عوام کو سنبھلنے نہیں دیا۔ رپورٹ کے مطابق مہنگائی نے سال گزشتہ کے دوران 37فیصد کی انتہائی بلند شرح کو عبور کیا۔ گذشتہ برس کے دوران پٹرول کی قیمت بھی 331روپے کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی جبکہ ڈالر کی قیمت بھی 307روپے کی بلند ترین سطح پر آگئی۔ ڈالر کی قدر میں کمی کے باوجود عوامی سطح پر اس کے اثرات منتقل نہ ہوسکے۔ سال کے دوران بجلی اور گیس کی قیمت میں اضافے نے مہنگائی کے شکار عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔ وفاقی ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق دسمبر 2023میں مہنگائی کی رفتار تیز ہوگئی، دسمبر 2023 میں افراط زر کی شرح 29.7 فیصد رہی۔ نومبر 2023 میں مہنگائی کی شرح 29.2 فیصد جبکہ دسمبر 2022 میں 24.5 فیصد رہی تھی۔ دسمبر 2023 میں شہری علاقوں میں مہنگائی کی شرح 30.9 فیصد رہی، دیہی علاقوں میں دسمبر کے دوران مہنگائی میں 27.9 فیصد اضافہ ہوا۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق دسمبر 2022کے مقابلے میں دسمبر 2023 کے دوران کھانے پینے کی اشیاء  میں اوسطاً 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ دسمبر 2022کے مقابلے میں دسمبر 2023میں بجلی کی قیمت 61.60فیصد اضافہ ہوا، ٹرانسپورٹ کے کرائے 58.18فیصد، واٹر سپلائی31.65فیصد مہنگی ہوئی۔ اسی طرح رپورٹ میں دیگر ضروریات زندگی، تعلیم اور صحت کے متعلقہ بوجھ غریبوں قوت برداشت سے بڑھ چکا ہے۔ اور آمدنی کے ذرائع محدود ہوتے جارہے ہیں
مہنگائی بڑھنے سے غربت کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ ہمیں غربت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، ملک کے چپے چپے پر پھیلے بھیک مانگتے بچے، بوڑھے اور جوان مردوخواتین نظر آئیں گے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفاتر کے باہر صبح سے شام تک امداد کے مستحق لوگوں کی لگی لمبی لمبی قطاریں غربت کی بڑھتی شرح کی آئینہ دار ہیں ۔لوگ پوچھتے ہیں بھکاریوں کی تعداد میں اتنا اضافہ کیوں ہو گیا ہے۔ ہر گلی، بازار، سڑک، چوک، چوراہے، دفاتر، دکان ،شاپنگ پلازے پر کم سن بچوں سے لے کر بڑی عمر کے مانگنے والوں کی تعداد پہلے سے زیادہ دیکھی جاسکتی ہے۔ جہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں نے گداگری کو پیشہ کیوں بنا لیا ہے۔ وہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں اس قدر روزگار کے مواقع موجود ہیں کہ سب لوگ اپنی بنیادی ضروریات زندگی کو پورا کرسکیں۔ جہاں تعلیم یافتہ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لئے آوارگی میں دفاتر اور کمپنیوں میں نوکری کے لئے دھکے کھاررہے ہوں، وہاں ان پڑھ نوجوانوں کو روزگار کہاں سے ملے گا۔ بے روزگاری اور کمر توڑ مہنگائی کے نتیجے میں آج کے نوجوان بھیک مانگنے سے تو رہے وہ ایک گینگ بناکر معاشرے میں ڈکیتی، چوری، راہزنی، اغوا جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور ایک طرف عوام الناس کا جینا حرام کرتے ہیں تو دوسری طرف امن قائم کرنے والے اداروں کے لئے درد سر بن جاتے ہیں۔ آج ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں جہاں بھی جانے کا اتفاق ہوا ہے، اہم چوک چوراہے مزدوروں کی منڈی کا منظر پیش کرتے ہیں۔ ہزاروں بے چارے غریب لوگ صبح گھروں سے نکل کر سڑکوں پر مزدوری کی آس لگائے بیٹھے نظر آتے ہیں، خوش قسمت ہی ہوتے ہیں جن کو مزدوری کے لئے کوئی لے جاتا ہے، کچھ مایوس گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور بچوں کی بھوک کے ہاتھوں جتنے وہ بے چارے تنگ ہوتے ہیں وہی جانتے ہیں یا خدا جانتا ہے حکومت پنجاب نے 32ہزار روپے کم سے کم اُجرت کا قانون پاس کیا جو چھوٹے طبقے کے لئے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مہنگائی کے طوفان بدتمیزی میں ایک ہزار روپے روزانہ سے ایک پورے خاندان کو پالنا ایک نہایت مشکل مرحلہ ہے، دوسری طرف 32 ہزار روپے ماہانہ اُجرت کو ہر سطح پر لاگو کرنا بھی ایک خواب ہے۔اکثر ادارے، کمپنیاں اور فرمیں محنت کش مزدوروں اور چھوٹے ملازمین کا استحصال کرتی ہیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کا حال دیکھ لیں چند بڑے اداروں کے علاوہ اکثر من مرضی کا کام لیتے ہیں اور تنخواہوں کی ادائیگی کا نظام انتہائی غیر معیاری ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین جو حالات سے تنگ آکر نجی تعلیمی اداروں میں تدریس کے فرائض سرانجام دینے کے لئے آتی ہیں، ان سے روزانہ طویل دورانیہ پر ڈیوٹی لی جاتی ہے اور اس کے بدلے انتہائی کم اجرت دس پندرہ ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے۔
آج ہر شہری کا ایک ہی سوال ہے کیا پیارے وطن پاکستان کے معاشی حالات کبھی بہتر ہوں گے؟ کیا غریب آدمی کو دو وقت کا کھانا میسر ہو گا؟ مہنگائی سے نابلد کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ دیکھو شاپنگ مال بھرے پڑے ہیں،ریستورانوں میں جگہ نہیں ،سڑکوں پر گاڑیوں کا ہجوم ہے، اس لیے کوئی مہنگائی اور غربت نہیں ،ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہے۔ وہ جس زاویے سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں وہ انتہائی محدود ہے اس زاویے میں مہنگائی اور غربت بالکل نظر نہیں آتی اور نہ ان کو غریب عوام کی زندگی سے کوئی سروکار ہے۔
پاکستان آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک ہے۔ قریباً 24کروڑ آبادی پر مشتمل ملک کی اکثر آبادی سطح غربت سے نیچے زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔امیر طبقہ کیا جانے مہنگائی اور غربت کیا چیز ہوتی ہے۔ امیر آدمی کے ایک وقت کے کھانے کا بل کئی غریب گھرانوں کے کھانے کی قیمت سے زیادہ ہوتا ہے۔ کوئی غریب آدمی ہی غریبوں کے حالات زندگی اور کمر توڑ مہنگائی سے واقف ہوسکتا ہے۔ ہر منتخب حکومت ان غریبوں کے ووٹوں سے بنتی ہے اور محرومیاں بھی انہی کے حصے میں آتی ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو مہنگائی کی چکی تلے پس گیا ہے اور زندہ رہنے کے لئے کسی ایسے مسیحا کا منتظر ہے کہ جو آئے اور ان کو سکھ کا سانس لینے کے مواقع فراہم کردے جہاں انصاف ہو کسی کا استحصال نہ ہو، قیام پاکستان کے اغراض ومقاصد کے عین مطابق عوام کو مساوی حقوق مل سکیں ۔ ملک میں حالات کو ساز گار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایک شعبہ پر سینکڑوں قسم کے نگران اور انسپیکشن کے دفاتر آفیسرز اور عملہ کم کیا جائے۔ سرکاری خزانے پر بوجھ کم کیا جائے۔ انتہائی ضروری شعبہ جات پر ہی وسائل خرچ کیے جائیں۔ سادگی اپنائی جائے، پروٹوکول کلچر بالکل ختم کیا جائے۔ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ بھیک مانگنے والوں کو مناسب اجرت پر لگایا جائے۔ مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے جائیں۔ ذخیرہ اندوزی کا مکمّل خاتمہ کیا جائے۔ سرکاری افسران اور ملازمین میں فرض شناسی اور خوف خدا کا جزبہ بے دار کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ ملازمین کی تنخواہوں میں فرق ختم کیا جائے،خصوصاً اساتذہ جو معمار قوم ہیں اور ساری سروس اپنے حق کے لیے عدالتوں اور دفاتر میں دھکے کھاتے گزار دیتے ہیں،ان کے مالی اور محکمانہ مسائل حل کیے جائیں، ان کوبنیادی حقوق اور معاشرے میں باوقار مقام دیا جائے تاکہ وہ پوری لگن سے ایسی نسل تیار کرسکیں جو ملک وقوم کی وفادار ہو اور ملک بحرانوں سے نجات حاصل کرکے ترقی وخوش حالی کی طرف گامزن ہوسکے۔

جواب دیں

Back to top button