ایڈیٹوریل

پاکستان تحریک انصاف کیلئے اچھی اور بُری خبر

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میںپانچ رکنی کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کا فیصلہ سنا یا۔الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے انتخابات پارٹی آئین کے مطابق نہیں کرائے جس کے بعد پی ٹی آئی بلے کے نشان کی اہل نہیں ہے۔ لیکن تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے بلے کا انتخابی نشان واپس لینے کے فیصلے کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ جانے کا اعلان اور الیکشن کمیشن پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بہرکیف چیئرمین اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی کو سائفر کیس میں سپریم کورٹ سے ریلیف ملا ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے سائفر کیس میں بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ شواہد نہیں کہ عمران خان نے کسی دوسرے ملک کے فائدے کے لئے سائفر پبلک کیا، عدالت نے فرد جرم سے متعلق درخواست کو غیر موثر قرار دیتے ہوئے آبزرویشن دی کہ ہائیکورٹ اس معاملے پر فیصلہ جاری کر چکی ہے جبکہ نئی فرد جرم پر پرانی کارروائی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ایک اور خبر کا بھی یہاں ذکر ضروری ہے ۔ سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عام انتخابات 2024 میں لیول پلئنگ فیلڈنہ ملنے کے الزمات پر مبنی آئینی درخواست نمٹاتے ہوئے الیکشن کمیشن کو درخواست گزار جماعت پی ٹی آئی کی شکایات دور کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل نے شکایات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔اِس کیس میں جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ بظاہر پی ٹی آئی کا لیول پلئنگ فیلڈ نہ ملنے کا الزام درست ہے،ایک سیاسی جماعت کو کیوں دیوار سے لگایا جا رہا ہے؟ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہی لیول پلئنگ فیلڈ ہے۔ عدالت نے اسلام آباد اور تمام صوبائی پولیس سربراہان (آئی جی) وفاقی و چاروں صوبائی حکومتوں اور الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ پی ٹی آئی کے انتخابی امیدواروں کو تنگ نہ کیا جائے اور ان کی شکایات کو دور کیا جائے،عدالت نے اس حوالے سے پی ٹی آئی کو آج (بروز جمعہ ہی الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کی بھی ہدایت کرتے ہوئے آبزرویشن د ی کہ اٹارنی جنرل اس معاملہ میں سہولت کار کا کردار ادا کریں۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے الیکشن کمیشن کے طرز عمل پر بھی مختلف سوالات اٹھائےڈی جی ،لاء نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کے امیدواروں سے کاغذات نامزدگی چھیننے کے حوالے سے کسی متاثرہ فریق کی کوئی درخواست نہیں ملی ،جس پرجسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اخبارات میں سب کچھ آ رہا ہے،اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے کیا کیا ؟انہوں نے کہاکہ سابق ایم این اے عثمان ڈار کی والدہ کے ساتھ جو ہوا ہے ؟اس حوالے سے نگران حکومت اور الیکشن کمیشن نے کچھ بھی نہیں کیا ،دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے موقف اختیار کیا کہ انتخابی شیڈول جاری ہوچکا لیکن اب بھی ایم پی او کے آرڈرز جاری ہو رہے ہیں، پی ٹی آئی کے امیدواروں کو نہ تو کاغذات دئیے جا رہے اور نہ ہی جمع کرانے دے رہے ہیں،جس پرقائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایم پی او کے آرڈر کیوں نہیں رکوا رہا؟ ابھی حکم نامہ لکھ کر بھجواتے ہیں تمام شکایات کا جائزہ لے کر حل کریں،جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ ریٹرننگ افسران کاغذات وصول نہیں کرتے تو الیکشن کمیشن کو جمع کرانے کی اجازت دی جائے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن فوری طور پر سیاسی جماعتوں سے ملاقات کرے۔قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ وکلا ء کو بھی ریٹرننگ افسران کے دفتر سے گرفتار کیا جارہا ہے،تمام آئی جی حضرات کو کہیں کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کو تنگ نہ کیا جائے۔ بہرکیف یہ پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کے لئے پچھلے دو دنوں سے ملے جلے فیصلے ہیں۔ پہلے عمران اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں سپریم کورٹ سے ضمانت مل گئی لیکن پھر ای سی پی نے متنازعہ انٹرا پارٹی انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان ‘’’بلا‘‘ واپس لے لیا۔آنے والے انتخابات میں دو ماہ سے بھی کم وقت باقی ہے لیکن ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر دیکھے جانے والی جماعت کے لئے صورت حال کافی سنگین نظر آ رہی ہے۔ پی ٹی آئی نے اس سارے عمل کو اس کے خلاف ’دھاندلی‘ قرار دیا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے ان شکایات کو سنجیدگی سے لیا اور ای سی پی سے بھی کہا ہے کہ وہ عام انتخابات میں ‘لیول پلینگ فیلڈ نہ ہونے کے بارے میں پی ٹی آئی کی شکایات کا ازالہ کرے۔ پی ٹی آئی کے ارکان کے گھروں پر چھاپے اور پولیس یا دیگر سرکاری عہدیداروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی چھیننے کی خبریں گزشتہ چند دنوں سے کافی پھیلی ہوئی ہیں اور بحث و مباحثوں میں یہی کہا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود پی ٹی آئی کی مشکلات میں کمی نہیں ہوگی، البتہ چیئرمین اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی کو سائفر کیس میں بڑا ریلیف ملا ہے جس کے بعد بلاشبہ انہوں نے سکون کا سانس لیا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے ڈی جی لا کے سامنے پی ٹی آئی کے معاملے پر جو سوالات اٹھائے اور جو سوالات نہیں اُٹھائے یہ سبھی معاملات درحقیقت عام انتخابات کی شفافیت کو متاثر کریں گے۔ ایک طرف الیکشن کمیشن غیر جانبدار ہونے کا دعویدار ہے تو دوسری طرف ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آنے والے معاملات سے لاعلمی ظاہر کررہا ہے۔ جہاں تک انٹرا پارٹی انتخابات کا معاملہ ہے تو کیا الیکشن کمیشن بخوبی واقف نہیں کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں انٹرا پارٹی انتخابات کس نوعیت کے ہوتے ہیں اور کیا پی ٹی آئی سے قبل کوئی سیاسی جماعت ایسے الیکشن کمیشن کے مدمقابل آکر کھڑی ہوئی ہے؟ معاملہ فہمی اور حالات کا تقاضا یہی ہے کہ عام انتخابات کو متنازعہ اور جانب دار بنانے والے ہر معاملے سے گریز کیا جائے کیونکہ الیکشن کمیشن کی ساکھ پر سپریم کورٹ نے بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ ہم کسی سیاسی جماعت کے حق یا مخالفت میں بات نہیں کررہے ہماری گذارش کا واحد خلاصہ یہ ہے کہ انتخابات ایسے ہوں جن کو سبھی صدق دل سے قبول کریں اور کوئی بھی ایسا دعویٰ نہ کرے، جس سے انتخابی عمل اور انتخابات کرانے والے متنازعہ ہوں اور اگلے پانچ سال ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام اور کھینچاتانی کی نذر ہوجائیں ۔ اپنے اضافی نوٹ میں سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت پر رہائی انتخابات کے دوران ‘حقیقی انتخابات کو یقینی بنائے گی اور اس طرح لوگوں کو اپنی مرضی کا موثر اور بامعنی اظہار کرنے کا حق استعمال کرنے میں مدد ملے گی۔چیئرمین پی ٹی آئی شاید سائفر کیس میں ضمانت کے بعد رہا نہ ہوں کیونکہ اِن پر اتنے زیادہ مقدمات درج ہیں تاہم وہ خود اور اِن کی پارٹی چاہے گی کہ ان کے ووٹرز باہر آئیں اور الیکشن کے دن پارٹی کو ووٹ دیں اور عین ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کے حامی افراد جو پی ٹی آئی کے ووٹرز بھی ہوں وہ آٹھ فروری کو جوق درجوق ووٹ ڈالنے کے لئے باہر نکل آئیںاور ممکن ہے کہ صورت حال اس سے مختلف بھی ہو ۔ انتخابی نشان واپس لینے کے خلاف ایک تو پی ٹی آئی عدالت سے رجوع کررہی ہے تو دوسری طرف یقیناً اِس کے متبادل کوئی حکمت عملی بھی پی ٹی آئی نے تیار کررکھی ہوگی ۔ ملک کی انتخابی تاریخ بتاتی ہے کہ انتخابی نشان واپس لینے سے سیاسی جماعت کے انتخابی امکانات پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اگر اسے عوام کی بھرپور اور گہری حمایت حاصل ہو کر،پک۔پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے انتخابی نشان تلوار کو 1977 کے متنازعہ انتخابات کے بعد سابق فوجی حکمران جنرل ضیاءالحق کے دور میں الیکشن کمیشن کی فہرست سے حذف کر دیا گیا تھا، مگر بینظیر بھٹو نے 1988 کے عام انتخابات میں انتخابی نشان تیر کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی ۔ اِس لئے تمام بڑوں اور فیصلہ سازوں کو غور کرکے ملک و قوم کو ایک غیر جانبدار اور غیر متنازعہ الیکشن دینا چاہیے تاکہ ملک میں استحکام آئے، کیونکہ نسل درنسل مقروض ملک بار بار انتخابات اور سیاسی اضطراب برقرار رکھنے کا قطعی متحمل نہیں ہوسکتا، اِس لئے جو ہوا آئندہ نہ ہونے کا عزم کرتے ہوئے معاملات کو ٹھیک کرنے کی اجتماعی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ کسی ایک کا زیر عتاب آنا اور کسی کے لئے راہیں ہموار ہونا ہمیشہ انتخابی عمل کو مشکوک اور متنازعہ بناتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button