ساجدہ صدیق

حقیقت

ساجدہ صدیق

 

جو انسان پیدا ہواہے ، اس نے مرنا ہے۔ لیکن جب تک وہ زندہ رہے گا، بدلتا رہے گا۔ پیدائش کے وقت ایک ننھا سا ناتواں وجود، جوانی تک کئی گنا بڑھ چکا ہوتا ہے۔ بڑھاپے میں ایک بار پھر ناتوانی لوٹ آتی ہے۔ اس دوران صرف جسم ہی نہیں بدلتا، ذہنی و نفسیاتی تبدیلیاں بھی مسلسل ہوتی رہتی ہیں۔ ان تبدیلوں کا سائنسی مطالعہ نفسیاتِ نمو یا ڈویلپمنٹ سائیکولوجی کرتی ہے۔ نفسیات کا یہ شعبہ زندگی کے پورے عرصے میں سوچ، احساسات، ادراک، ذہانت اور رویوں وغیرہ میں بدلاؤ پر نظر رکھتا ہے۔ اس شعبے کے ماہرین یہ دیکھتے ہیں کہ کون سے عوامل عمر کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہن پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ وہ فطرت اور تربیت کے انسانی نفسیاتی ارتقا پر اثرات کی جانچ کرتے ہیں۔
جان بی واٹسن اور ژاں ژاک روسو کو جدید نفسیات کے اس شعبے کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ابتدا میں شعبے میں زیادہ توجہ بچوں پر دی جاتی تھی لیکن وقت کے ساتھ اس کا دائرہ پوری حیات پر محیط ہو گیا۔ انسانی نفسیات کی نشوونما میں پہلا مرحلہ پیدائش سے قبل کا ہے ۔ بچہ اس مرحلے پر ہی ردعمل ظاہر کرناشروع کر دیتا ہے۔ مثلاً خیال کیا جاتا ہے کہ پیدائش سے قبل ہی بچہ ماں کی آواز سے مانوس ہوچکا ہوتا ہے۔ دوران پیدائش ہونے والی پیچیدگیاں شیزوفرینیا جیسے امراض کا سبب بن سکتی ہیں۔ بہت سے کیمیائی مادے بچے کو قبل از پیدائش جسمانی و ذہنی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ان میں منشیات، تمباکو، الکحل، ماحولیاتی آلودگی وغیرہ شامل ہیں۔ پیدائش کے بعد بچے اپنا زیادہ تر وقت سوتے ہوئے گزارتے ہیں لیکن چند ماہ کے بعد بچے سونا کم کر دیتے ہیں۔ پیدائش کے فوری بعد بچے کی دیکھنے کی صلاحیت محدود ہوتی ہے۔ وہ صرف قریب دیکھ سکتا ہے اور اسے اشیا دھندلی دکھائی دیتی ہیں۔ جب ماں دور جاتی ہے تو اسے یوں لگتا ہے جیسے وہ غائب ہو گئی ہے کیونکہ تھوڑے ہی فاصلے کے بعد اس کی نظر کام نہیں کرتی۔ اس لئے اس کی نظر آنے والی دنیا بہت محدود ہوتی ہے۔ بڑوں کی طرح صاف اور دور تک دیکھنا وہ قریباً چھ ماہ کی عمر میں شروع کرتاہے۔ لیکن بچے کی سننے کی صلاحیت شروع سے اچھی ہوتی ہے۔ وہ ماں اور انسانوں کی آوازوں کو دوسری آوازوں پر ترجیح دیتا ہے۔ اسے دوسری زبانوں کی نسبت اپنی مقامی زبان سننا پسند ہوتاہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ وہ آموزش ہے جو پیدائش سے قبل ہو جاتی ہے۔ ایک سے دو سال کی عمر کا بچہ اپنے آپ سے آگاہ ہوناشروع ہوتا ہے اور اپنی زبان کا بہتر استعمال کرنے لگتاہے۔ چونکہ اس عمر میں بچہ چلنے لگتا ہے اس لئے اس میں قوت فیصلہ بھی پروان چڑھتی ہے۔ وہ تصورات قائم کرنے لگتا ہے اور یاد رکھنے لگتا ہے۔ اسے لوگ اور مقام یاد رہتے ہیں۔ زبان سیکھنے سے وہ دوسروں کے سامنے اپنی خواہشات اور جذبات پیش کرنے کے قابل ہوتا ہے اور دوسروں کی بات سمجھ بھی لیتا ہے۔ اسے کرنے والے اور نہ کرنے والے کاموں میں تمیز پیدا ہونے لگتی ہے۔ وہ غلطیوں سے سیکھنا شروع کرتا ہے اور اپنی ذات پر انحصار کرنے لگتاہے۔ اسی دوران اس پر صنفی کردار بھی واضح ہونے لگتاہے، مثلاً اگر وہ لڑکا ہے تو اس نے کیسے کپڑے پہننے ہیں اور کون سے کھیل کھیلنے ہیں۔ اس کے بعد کے برسوں میں اس کی حیثیت ایک چھوٹے سے سائنس دان کی ہوجاتی ہے جو مختلف تجربات کرتا اور سیکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس معاملے میں اسے آزادی دی جائے اور روک ٹوک نہ کی جائے۔ اس دوران اس کی ادراکی صلاحیت تیزی سے بڑھتی ہے۔ پھر سکول جانے کا مرحلہ آن پہنچتا ہے۔ سکول اس کے لئے بالکل ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ یہاں اس کا واسطہ مقابلے سے پڑتا ہے۔ یہ مقابلہ امتحانات میں کامیابی، زیادہ نمبر لینے یا کھیل میں جیت سے منسلک ہوتا ہے۔ گھر سے باہر اس کی دوستیاں اور رشتے استوار ہوتے ہیں۔ وہ دوسروں کا خیال رکھنا اور برداشت کرنا سیکھتا ہے۔ زبان کے علاوہ لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، اور یہ اظہارنسبتاً زیادہ واضح ہوتا ہے۔ بلوغت میں قدم رکھنے کے بعد فرداپنی علیحدہ شناخت کا متمنی ہوتاہے۔ جسم اور ہارمونز میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے اسے نئے چیلنج کا سامنا ہوتاہے۔ بلوغت میں قدم رکھنے کے بعد وہ پیچیدہ تصورات کی چھان پھٹک کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ مثلاً وہ زندگی کا مقصد، اخلاقیات اور عقائد وغیرہ پر سوچنا شروع کر سکتا ہے۔ 25 سال کی عمر کے بعد بلوغت میں پختگی آتی ہے اور زندگی کے مقصد کو عملی شکل دینے کا وقت بھی۔ جسم مضبوط ہو چکا ہوتاہے اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ جذباتی ٹھہراؤآ جاتا ہے۔ فرد نفع نقصان کو نظر میں رکھ کر ردعمل زیادہ واضح انداز میں ظاہر ہونے لگتاہے۔ اسی عمر میں کسی فرد سے طویل رفاقت کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ 40 سے 45 برس کی عمر میں جوانی ڈھلنا شروع ہوتی اور پختگی بڑھنا۔ ذہنی اعتبار سے اس عمر میں انسانی کارگزاری میںکمی نہیں ہوتی لیکن جسم پہلے جیسی مشقت کے قابل نہیں ہوتا۔
عالمی ادارۂ صحت کا ماننا ہے کہ اس امر پر کوئی اتفاق نہیں کہ بڑھاپا کس عمر میں شروع ہوتا ہے۔ بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں 60 سے65 برس کی عمر کو بڑھاپے کا آغاز مانا جاتاہے۔ تاہم ترقی پذیر ممالک میں اوسط عمر کم ہونے اور صحت کی حالت مخدوش ہونے کی وجہ سے اس سے کم عمر میں بھی بڑی تعداد سرگرم نہیں رہتی ۔ بڑھاپے میں جہاں جسمانی طاقت، نظر اور سونگھنے کی قوت کم ہوتی ہے وہیں ذہنی کمزوری بھی ہوتی ہے۔ اس عمر میں بھولنے کا مرض عام ہوتا ہے۔ اس عمر میں خاندانی اور گھریلو حالات ذہنی صحت پر خاصے اثر انداز ہوتے ہیں۔ بڑھاپے میں ذہنی اورجسمانی طورپر متحرک رہنے والے افراد کی کارگزاری اچھی رہتی ہے، وہ معاشرے کے لئے سود مند کام کرتے رہتے ہیں اور تنہائی اور مایوسی کا کم شکار ہوتے ہیں۔پرانے زمانے میں مال برداری اور پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے بیل گاڑیاں ہوا کرتی تھیں۔ ہر بیل گاڑی کے ساتھ ایک کتا ضرور ہوتا تھا جب کہیں سنسان بیابان میں مالک کو رکنا پڑتا تو اس وقت وہ کتا سامان کی رکھوالی کیا کرتا تھا۔ جس جس نے وہ بیل گاڑی چلتی دیکھی ہوگی تو اس کو ضرور یاد ہوگا کہ وہ کتا بیل گاڑی کے نیچے نیچے ہی چلا کرتا تھا۔اُس کی ایک خاص وجہ ہوتی تھی کہ جب مالک چھوٹا کتا رکھتا تھا تو سفر کے دوران اُس کتے کو گاڑی کے ایکسل کے ساتھ نیچے باندھ دیا کرتا تھا تو پھر وہ بڑا ہو کر بھی اپنی اسی جگہ پر چلتا رہتا تھا۔ ایک دن کتے نے سوچا کہ جب مالک گاڑی روکتا ہے تو سب سے پہلے بیل کو پانی پلاتا ہے اور چارا ڈالتا ہے پھر خود کھاتا ہے اور سب سے آخر میں مجھے کھلاتا ہے۔ حالانکہ گڈھ تو ساری میں نے اپنے اوپر اُٹھائی ہوتی ہے۔
دراصل اس کتے کو گڈھ کے نیچے چلتے ہوئے یہ گمان ہو گیا تھا کہ یہ گڈھ میں نے اُٹھا رکھی ہے۔ وہ اندر ہی اندر کُڑھتا رہتا ہے اور ایک دن فیصلہ کیا کہ اچھا پھر ایسے تو ایسے ہی سہی میں نے بھی آج راستے میں ہی گڈھ چھوڑ دینی ہے جب آدھا سفر ہوا تو کتا نیچے بیٹھ گیا اور گڈھ آگے نکل گئی کتا حیران پریشان اس کو دیکھتا رہ گیا۔
ایسے ہی کچھ کردار آپ کو اپنی زندگی میں ملیں گے جو اس گمان میں ہیں کہ سارا بوجھ تو انہوں نے اٹھا رکھا ہے وہ نا ہوں گے تو سسٹم رک جائے گا۔ حلانکہ ایسا کچھ بھی نہیں۔ یاد رکھیں زندگی کبھی نہیں رکتی کسی کے لئے کہانی میں کردار بدلتے رہتے ہیں مگر زندگی چلتی رہتی ہے ۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

Back to top button