آج کے کالمحافظ محمد قاسم مغیرہ

عام آدمی

قاسم مغیرہ

اداروں کے وقار کے شور میں عام آدمی کا وقار کہیں کھو گیا ہے۔ عدالتوں کی توقیر، پارلیمنٹ کے استحقاق اور عساکر پاکستان کے تقدس کے بلند و بانگ نعروں میں عام آدمی کی عزت نفس گم ہوگئی ہے۔ اشرافیہ کے احترام کے مقدس ہالوں میں عام آدمی کا چہرہ دھندلا گیا ہے۔
عام آدمی نے بھی کیا زندگی پائی ہے کہ ہر جگہ اس کی عزت کی پامالی کا پورا بندوست کیا جاتا ہے۔ ملک میں کوئی آفت آجائے ، اس کا ملبہ عام آدمی پر ہی گرتا ہے۔ قانون جب گہری نیند سے بیداری کے بعد ہلکی سی انگڑائی لے اور اسے احساس ہو کہ اس کی بالادستی بھی کوئی چیز ہے تو اپنے بازوئے شمشیر زن سے عام آدمی کی گردن دبوچتا ہے۔ جب ریاست کو ٹریفک قوانین کے نام پر عوام کے تحفظ کا خیال آئے تو سب سے زیادہ عام آدمی کی ہی گردن مروڑی جاتی ہے۔ ایک طرفہ تماشا یہ ہے کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر چالان کرنے والے ٹریفک پولیس کے اہل کار ٹریفک قوانین پر عمل کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اور کچھ برملا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ انہیں روزانہ ایک خاص تعداد میں چالان کرنے کا حکم ملتا ہے گویا ٹریفک قوانین کی پاس داری ایک ثانوی چیز ہے ، پیسے بٹورنا اولین ترجیح ہے۔
جب ریاست کو ماحولیاتی تحفظ کا خیال آئے تو رکشے والے ، چھوٹے کارخانوں والے زیر عتاب آتے ہیں۔ بڑی فیکٹریوں اور کارخانوں کے مالکان کے خلاف کارروائی کرنے سے قانون کے پر جلتے ہیں۔ فوڈ اتھارٹی عوام کو خالص خوراک فراہم کرنے نکلتی ہے تو چھابڑی فروشوں، چھوٹے دکان داروں اور ریڑھی بانوں کا گریبان پکڑتی ہے۔ گراں فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوتا ہے تو چھوٹا دکان دار زیرِ عتاب آتا ہے۔ ان مگرمچھوں جن سے ایک دکان دار مال خریدتا ہے، پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع ہو تو ریڑھیاں اور ٹھیلے الٹاکر قانون کی جان میں جان آجاتی ہے۔ کسی ڈرگ انسپکٹر کو جوش آتا ہے تو چھوٹے میڈیکل سٹورز کا رخ کرتا ہے۔
عام آدمی کے لیے تحفظ مفقود، عزت نفس ناپید ، علاج معالجہ معدوم اور انصاف’’ ناقابل خرید‘‘ ہے۔ ریاست نے عام آدمی کی پامالی کا مکمل انتظام و انصرام کر رکھا ہے۔ عام آدمی قومی شاہراہوں پر سفر کرے تو قانون پسند شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ٹال ٹیکس ادا کرکے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالے اور وہاں آویزاں ایک عبارت کہ’’ فلاں فلاں گاڑیاں ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں‘‘ پڑھ کر برہم نہ ہو بل کہ جارج آرویل کو خراج تحسین پیش کرکے آگے بڑھ جائے۔
Some are more equal than others”
عام آدمی علاج کے لئے کہاں جائے؟ مفت او پی ڈی تک تو ریاست کا دست شفقت عام آدمی کے سر پر ہے۔ اس کے بعد ریاست کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور مریض یا تو بڑے شہروں کا رخ کریں یا نجی ہسپتالوں سے رجوع کریں۔ اس کے لئے ریاست نے ایک مکمل ضابطہ تشکیل دے رکھا ہے۔ اس کی رو سے گوجرانولہ کے مریض لاہور جائیں گے، ٹوبہ ٹیک سنگھ کے مریض فیصل آباد، وہاڑی کے مریض ملتان جائیں گے۔دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے لوگ مزید تفصیلات کے لئے اپنے مقامی ڈی ایچ کیو ہسپتال سے رجوع کریں۔نجی ہسپتالوں میں علاج سے عام آدمی عمر کی بھر کی پونجی خرچ کرکے ریاست کی نا اہلیوں کا تاوان بھرتا ہے۔
عام آدمی سیاسی جماعتوں کا ایندھن بھی بنے، اشرافیہ کے لئے سامان تعیش کی فراہمی بھی یقینی بنائے، اپنی عزت نفس گروی رکھ کے دو وقت کی روٹی کمائے اور فلاں زندہ باد، فلاں مردہ بعد کے نعرے لگا کے سوجائے۔ اگلی صبح بیدار ہوکر ایک بار پھر اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کے لئے نکل پڑے۔
عام آدمی کا وقار اتنا سستا کیوں ہے؟ اس کی عزت نفس کوڑیوں کے بھاؤ کیوں بک جاتی ہے؟ اس کی توقیر کیوں مجروح ہوتی ہے؟ کیا یہ برائے فروخت ہے؟ کیا یہ گوشت پوست سے نہیں بنا؟ کیا اس کی رگوں میں لہو نہیں دوڑتا؟ کیا اس کے جذبات و احساس کی کوئی قدر نہیں؟ کیا یہ اتنی گری پڑی چیز ہے کہ عدالتوں میں بھی ذلیل ہو، بیگمات کے ہاتھوں بھی رسوا ہو؟ اس کا بچہ اشرافیہ کے بچوں کے بستے اٹھائے ، کمرہ جماعت تک چھوڑ کر واپس آجائے، کسی ہوٹل میں جائے تو برہمن بچوں سے الگ ہوکر بیٹھے، منہ دوسری طرف رکھے۔
عام آدمی کہیں زیر بحث بھی نہیں آتا۔ سیاسی جماعتیں طرح طرح کے جوڑ توڑ کرتی ہیں۔ بڑے بڑے نام چلت پھرت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سیاست دانوں کی ملاقاتیں ہوتی ہیں، گھوڑوں کی خرید و فرخت ہوتی ہے، سیاسی بساط کے مہرے ادھر سے ادھر ہوتے ہیں لیکن عام آدمی کہیں موضوع سخن نہیں بنتا۔ ایک واری فیر، صاف چلی شفاف چلی اور روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے بھی لگتے ہیں لیکن عام آدمی کے حالات نہیں بدلتے۔ یہ کسی سیاسی جماعت کے منشور کا حصہ نہیں ۔ عدالتیں اس کی پامالی پر کمر بستہ ، ادارے اس کا وقار مجروح کرنے کے لئے ہمہ وقت چوکس ، سیاسی جماعتیں اسے اپنے پست مفادات کا ایندھن بنانے کے لئے ہر وقت آمادہ اور تھانے اس کی مرمت کے لئے دن رات کھلے ہیں۔
ملک میں جب بھی مبینہ خوش حالی آتی ہے تو اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچتے لیکن جب ’’ بحران‘‘ آجائے تو عام آدمی کا لہو نچوڑنے کے لیے منظم منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
اشیاء خورونوش اس کی پہنچ سے دور، بلوں کی ادائیگی اس کی بساط سے باہر اور علاج معالجہ اس کی ہمت سے فزوں تر۔ اداروں نے خصوصی بندوست کر رکھا ہے کہ عام سکھ کا سانس نہ لینے پائے ۔ ریاست پہلے تو ایسے معاشی حالات پیدا کرتی ہے کہ عام آدمی کا جینا دوبھر ہو جائے اور جب ریاست کے پیدا کردہ حالات کے نتیجے میں عام آدمی بروقت بل جمع نہ کراسکے تو واپڈا کے اہل کار اتنی سرعت سے میٹر کاٹنے آتے ہیں کہ گویا کار ثواب ہو۔ بڑی بڑی فیکٹریوں اور کارخانوں کے میٹر نہیں کٹتے۔
گزشتہ دنوں لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والی ایک عورت کی بابت معلوم ہوا کہ پینتالیس سو روپے بل جمع نہ کراسکنے پر قانون حرکت میں آیا اور اس کا میٹر کاٹ لیا گیا۔
ہر معاملے میں اشرافیہ اور عام آدمی کے درمیان ایک واضح لکیر موجود ہے۔ عام آدمی کے بے توقیر ہونے پر نہ جج برہم ہوتے ہیں ، نہ سیاست دانوں کی اے پی سی ہوتی ہے، نہ افسر شاہی کی جبیں پہ بل پڑتا ہے۔ اگر ریاست عام آدمی کو عزت نفس، انصاف ، روزگار اور خوش حالی نہیں دے سکتی تو یہ کس مرض کی دوا ہے؟

جواب دیں

Back to top button