آج کے کالممحمد انور گریوال

سقوطِ ڈھاکا! ایک عظیم سانحہ!

محمد انور گریوال

 

کہا گیا تھا کہ پاکستان وہ پہلا ملک ہے جو کسی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ جو سُنا ، جو پڑھا ، مان لیا۔ پاکستان بنے گیارہ ماہ ہی گزرے تھے کہ سازشوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا، گویا سازشی تو موجود تھے، مگر قائدِ اعظم کی موجودگی میں کسی کی جرأت نہیں تھی کہ کوئی ایسی بات یا حرکت کرتا ۔ قائدِ اعظم کا مضبوط کردار اور عزمِ مصمّم ہی تھا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی اُن کی توجہ اور گرفت تھی۔ کابینہ کے اجلاس میں چائے پینے سے لے کر قومی اہمیت کے فیصلے کرنے تک وہ ہر معاملے پر نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ اُن کے بعد زوال کا پتھر کچھ اِس تیزی اور شدت سے نیچے کی طرف لُڑھکا کہ پاتال تک پہنچ کر ہی دم لیا۔ حکومتی سطح پر عدم استحکام، محلّاتی سازشیں، اکھاڑ بچھاڑ نے ترقی کی گاڑی کو ایک قدم آگے نہ بڑھنے دیا۔ پھر مارشل لاء آیا اور طول پکڑتا گیا، ابھی اُس کا تسلط ختم نہ ہوا تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت پر وہ آفت آئی کہ نہ عزت محفوظ رہی نہ ملک۔
یہ پاکستان نامی مملکت ابھی کسی ڈگر پر چلنے بھی نہ پائی تھی اور اس کی عمرِ عزیز ابھی چوبیسویں برس میں ہی تھی کہ اِس کا ایک بازو کٹ گیا، جو ذلّت و رسوائی ہوئی سو ہوئی ، دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے اعزاز سے بھی محروم ہونا پڑا۔ تقسیمِ ہند کے وقت یہ ملک مشرقی اور مغربی پاکستان تھا، دو قالب ایک جان۔ مگر فقط چوبیس برسوں میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش کا روپ دھار گیااور ہمارے نام سے ’مغربی‘ کا لفظ ایک مہمل کی حیثیت اختیار کرنے کی وجہ سے ختم کر دیا گیا، اب ہم ہی پورا پاکستان تھے۔ ہمارے جیسے پرانے لوگ جنہوں نے مشرقی پاکستان کا کسی حد تک زمانہ دیکھا ہے، جب وہاں کے شہروں کے نام یاد کرتے ہیں تو دل ڈوبنے لگتا ہے، خیالات کی گہری دھند چھا جاتی ہے ، افسردگی اور شرمندگی دسمبر کی سردی کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
سقوطِ ڈھاکا کے بہت سے پہلو ہیں، سب سے پہلی بات تو یہی تھی کہ حالات کا جائزہ لیا جاتا اور اُن ذمہ داروں کو قوم کے سامنے آئینہ کر دیا جاتا ، جن کی وجہ سے یہ عظیم سانحہ پیش آیا، جن کی غلطیاں یا نااہلیاںیا نفرتیں یا کمزوریاں اس حد تک بڑھ گئی تھیں کہ ہم چوبیس برس ہی اکٹھے رہ سکے۔ چوبیس بھی گنتی کے سال ہیں، ورنہ نفرت اور دشمنی کی بنیاد کئی برس پہلے ہی رکھ دی گئی تھی، جس نے اس قدر طاقت حاصل کر لی کہ دیکھتے ہی دیکھتے نفرت کے بیج تناور درخت بن گئے کہ انہیں جڑ سے اکھاڑنا ممکن نہ رہا۔ جس کام کو مصلحت اور حکمت سے سلجھایا جانا چاہیے تھا، اپنے حکمرانوں نے طاقت کے ذریعے سے اُسے الجھا دیا، یہ الجھن آگے جا کر ٹکرائو کی صورت اختیار کرگئی اور اپنے ہی لوگ اپنے ہی ملک کے دشمن بن کر سامنے آ کھڑے ہوئے۔ ایوب خانی دورِ آمریت نے نفرتوں کو ہوا دینے میں مرکزی کردار ادا کیا، بنگالیوں کے خلاف نفرت کے بیج اسی دور میں بوئے گئے، نتیجے میں خار دار فصل کی برداشت یحییٰ دور میں ہوئی۔
ستم یہ بھی ہوا کہ ہم نئی نسل کو اتنے بڑے سانحے کی وجوہات اور اسباب کیا بتاتے کہ ہماری نئی نسل سقوطِ ڈھاکہ کے بارے میں بنیادی معلومات سے بھی نا آشنا ہے۔ آپ کسی کالج کی سطح کے تعلیمی ادارہ میں چلے جائیں، وہاں چند طلبا و طالبات سے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے بارے میں معلوم کرکے دیکھ لیں ،کچھ ہی دیر میںاپنا ہی سر پیٹ کر رہ جائیں گے، کیونکہ کسی دوسرے کا سر پیٹنے کا نتیجہ نہایت ہی خطرناک رُخ اختیار کر سکتا ہے۔ ہماری نئی نسل یہ بھی نہیں جانتی ہو گی کہ جس مسلم لیگ کے سر پاکستان بنانے کا سہرہ ہے، اُس کا قیام بھی اِسی ڈھاکا میں ہوا تھا۔ انگریزوں سے آزادی کی تحریک میں بھی ’بنگال‘ نے اہم ، قائدانہ اور کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اِن سرفروشوں کو ساتھ لے کر چلنے کی بجائے اپنا دشمن بنا لیا گیا۔
اِس سانحے کے کردار کون تھے؟ کن حالات میں پاکستان کا مشرقی بازو کاٹ دیا گیا؟ اس پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں، جن کے مطالعے سے بہت سے چہروں سے نقاب اترتے ہیں۔ مگر فیصلہ کن صورتِ حال کم ہی پیدا ہو ا کرتی ہے۔ مگر یہ تو ہوتا کہ اُس کے بعد فوجی حکومتیں یا سیاست دان کوئی سبق ہی حاصل کرتے کہ حق اگر بھائی کا بھی کھایا جائے اور اُس کے احتجاج کرنے پر اُسے دبایا جائے تو نتیجہ اچھا برآمد نہیں ہوتا، تنگ آمد بجنگ آمد پر کسی وقت بھی عمل ہو سکتا ہے، اور جنگ کے بعد نتیجہ ضروری نہیں کہ اپنی مرضی کا ہی نکلے۔ اگرچہ سانحہ مشرقی پاکستان کے پیچھے طویل عرصہ تک فوجی آمریت کار فرما رہی تھی، جس کا منطقی نتیجہ علیحدگی نکلا، مگر اب سیاسی معاملات کو ہی دیکھ لیں، حکومتیں عوام سے دور کوئی مخلوق ہیں، مراعات یافتہ طبقے اس قدر لوٹ مار میں مگن ہیں کہ انہیں کوئی اندازہ ہی نہیں کہ تمام تر ضروریاتِ زندگی سے محروم عوام اب کس قدر تنگ آ چکے ہیں، اب آگاہی اور بیداری کی لہر پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہے، اب سوشل میڈیا نے قوم کو ہر لمحے سے باخبر کر رکھا ہے۔ قوم کے اندر بڑھتی ہوئی نفرت کے آگے بند نہ باندھا گیا تو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔
مانا کہ ماضی میں زندہ رہ کر زندگی نہیں گزاری جا سکتی، حالات کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھنے میں ہی کامیابی پوشیدہ ہے، مگر تاریخ کو فراموش کر دینے والی قومیں بھی کبھی ترقی نہیں کر سکتیں۔ ضروری ہے کہ ہمارے تعلیمی نصابوں میں سقوطِ ڈھاکا کا باب شامل کیا جائے، ذلّت کی حقیقی داستانیں قوم کے سامنے آشکار کی جائیں۔ جنگ میں کیا ہوا؟ اپنے ہی لوگوں نے نفرت کی آگ میں جل کر کس طرح اپنی ہی فوج کے خلاف لڑائی کی؟ بھارتی فوج نے کس طرح مکتی باہنی کی مدد کی؟ کس طرح متحدہ پاکستان کے حامیوں اور اُن کے اہلِ خانہ کو موت کے گھاٹ اتارا گیا؟ حتیٰ کہ سقوطِ ڈھاکہ کے پنتالیس سال بعد متحدہ پاکستان کے حامیوں کو آخری عمر میں پھانسیاں دی گئیں؟ اور جس بھائی کو استحصال کے ذریعے نفرت اور علیحدگی پر مجبور کر دیا گیا، اُن کے بقول کہ اُن کا حق مغربی پاکستان کھا رہا ہے، اب بنگلہ دیش ترقی میں کہاں پہنچ چکاہے ؟اور پاکستان مراعات یافتہ مقتدر طبقوں کی کرپشن ،غیر سنجیدہ سیاسی رویوں اور لوٹ مار کی بدولت مسلسل زوال پذیر ہے۔ اِس صورتِ حال میں ہم کبھی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتے ہیں؟

جواب دیں

Back to top button