پاکستانخبریں

شوکت صدیقی برطرفی: کیا کوئی فوجی جنرل حکومت ہٹا کر خود وزیر اعظم بننا چاہتا تھا؟

شوکت صدیقی برطرفی کے حوالے سے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران بینچ نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو نوٹس جاری کردیئے جبکہ اس موقع پر عدالت کی جانب سے اہم آبزرویشنز سامنے آئیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل دعوی سے کہا اگر آپ کے الزامات درست ہیں تو وہ جنرلز کسی کے سہولت کار بننا چاہ رہے تھے، جس کی یہ جنرل سہولت کاری کر رہے تھے وہ کون تھا؟ اگر آپ کے الزامات درست ہیں تو وہ وزیراعظم کو ہٹا کر کسی اور کو لانا چاہ رہے ہوں گے تو وہ کون تھا۔شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ میرے مؤکل کی جانب سے لگائے گئے الزامات درست ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ ہمارے سامنے آرٹیکل 184 تین کے تحت آئے ہیں، یہ بھی یاد رکھیں کہ اصل دائرہ اختیار کے تحت کیا ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہا تھا کیا کوئی فوجی افسر خود وزیراعظم بننا چاہتا تھا؟ سہولت کاروں کو فریق بنا لیا ہے تو فائدہ اٹھانے والے کو کیوں نہیں بنایا؟ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا فائدہ کس نے لیا ایسی کوئی بات تقریر میں نہیں تھی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کی درخواست میں عدالت کا اختیار شروع ہوچکا ہے، فوجی افسر کسی کو فائدہ دے تو وہ بھی اس جال میں پھنسے گا۔ کیل حامد خان نے کہا کہ فوج شاید مرضی کے نتائج لینا چاہتی تھی، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا ایک امیدوار کو سائڈ پر اسی لیے کیا جاتا ہے کہ من پسند امیدوار جیتے۔

سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی نے کہا فوج نے اپنے امیداواروں کو جیپ کا نشان دلوایا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا فوج ایک آزاد ادارہ ہے یا کسی کے ماتحت ہے؟ فوج کو چلاتا کون ہے؟

وکیل حامد خان نے کہا فوج حکومت کے ماتحت ہے،جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا حکومت فرد نہیں ہے، جو شخص فوج کو چلاتا ہے اس کا بتائیں،جب آپ ہمارے پاس آئیں گے تو ہم آئین کے مطابق چلیں گے، یہ آسان راستہ نہیں ہے، شوکت عزیز صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے انکے نتائج بھی سنگین ہوں گے۔

جواب دیں

Back to top button