آج کے کالممحمد انور گریوال

ملک کی یہ حالت باریاں لینے والوں نے کی ہے!

محمد انور گریوال

بلاول، جنہیں چند برس قبل بلاول زرداری سے بلاول بھٹو زرداری بنا دیا گیا تھا، پارٹی کی نچلی قیادت نے اپنی شبانہ روز کی محنت سے اُنہیں اردو بولنا سکھایا ، پھر خطابت کے خاص لہجے سے آشنا کروایا، کہ جس سے اُن کی مرحومہ والدہ کی یاد تازہ ہوتی تھی۔ پھر خدا خدا کرکے میڈیا کے سامنے آنے کا ماحول بنایا۔ حکمران خاندان کے چشم وچراغ ہونے کے ناطے بھی اور بیرونِ ممالک سے تعلیم حاصل کرکے آنے کی وجہ سے بھی خود اعتمادی کوئی مسئلہ نہ تھی۔ ماضی کے نامور فلمی اداکار مصطفی قریشی کا تعلق بھی سندھ سے تھا، مگر پنجابی فلموں میں انہوں نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کر دیئے، کسی کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ مجھے چونکہ پنجابی نہیں آتی تھی، ا س لئے لفظ کو ذرا رُک کر اور کھینچ کر بولتا تھا، یہ سٹائل بن گیا اور لوگوں کو بہت پسند آگیا۔ کچھ یہی معاملہ بلاول کے ساتھ بھی ہے، اردو آتی نہیں تھی، انگریزی لہجے میں ذرا کھینچ کھینچ کر اردو بول کر نیا سٹائل متعارف کروایا دیا گیا۔ اگرچہ مقبولیت کی وجہ یہ سٹائل نہیں، آبائو اجداد ہیں جن کی وجہ سے پارٹی کے چھوٹے بڑے لیڈر اور کارکنان اُن سے محبت کرتے ہیں۔ تمام خاندانی سیاسی پارٹیوں کو یہ فخر اور اعزاز حاصل ہے۔
جب سے قومی الیکشن کا نقارہ بجا ہے، بلاول زرداری بہت زیادہ سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا بھی ہوا کہ اگر کبھی غلطی سے رات کے خبرنامے کے لئے ٹی وی آن کر لیا تو پہلی خبر کے طور پر بلاول کو ہی سکرین پر جلوہ گر پایا۔ چینل بدلنے کا تجربہ بھی کر دیکھا، اکثر جگہ یہی منظر سامنے آیا۔ دھیان میں یہ بات کچھ کھٹکی، آخر یک دم کیا ہوا کہ بلاول کی سیاسی تقریبات کیسے اتنی اہم ہو گئیں کہ پہلی خبر بن گئیں، وہ بھی اکثر ٹی وی چینلز پر، مگر دھیان کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ہی خود بھٹک کر رہ گیا۔ آصف زرداری کے پاس بہت سے پَتّے ہیں ، جو وہ سیاست کے میدان میں کھیلتے ہیں اور دوسروں کو حیران کرتے ہیں، انہیں فی زمانہ سیاست کے سب سے بڑے مفاہمت کار بھی تسلیم کیا جاتا ہے، ظاہر ہے انہوں نے ایسا کوئی ہنر آزمایا ہوگا کہ ٹی وی چینلز کے خبرناموں میں پہلی جھلک بلاول ہی کی دکھائی دیتی ہے۔
خبر نامے میں سب سے پہلے نمودار ہو کر سبقت لے جانا الگ کہانی ہے، مگر جو کچھ کہا جارہا ہے وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں، پہلے چند روز تو بلاول نے مسلم لیگ کو ’’مہنگائی لیگ‘‘ کے طور پر ایسا اٹھایا، کہ بس اٹھائے ہی رکھا۔ یہ نام حیران کن اس لئے تھا کہ قریباً سوا سال سے زائد یہ دونوں پارٹیاں مل کر ملکی معیشت کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھیں، زرداری نے اپنی کامیاب سیاست کے پتّہ یوں کھیلا تھا کہ اُن کا نوجوان بیٹا اتحادی حکومت میں وزیرِ خارجہ تھا، یہ بڑی ہی سوچی سمجھی منصوبہ بندی تھی کہ آئندہ انہوں نے چونکہ کبھی وزیراعظم بننا ہے، اس لئے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح یہ بھی تجربہ حاصل کر لیں ، بیرونی ممالک سے یہ خود ڈیل کرکے خود بھی تجربہ کار ہو جائیں، جہاں تک تعارف کی بات ہے، تو وہ کسی تعارف کے محتاج تو ہیں نہیں، کہ نانا، والدہ اور والد پاکستان کے اعلیٰ ترین سیاسی مناصب پر فائز رہ چکے تھے۔
بلاول زرداری نے اپنی لفظی توپوں کا رُخ مسلم لیگ نون کی طرف کر رکھا ہے، انہوںنے انتخابی سیاست میں کیا موقف اختیار کرنا ہے؟ یا کس بیانئے پر الیکشن لڑنا ہے؟یہ وہ خود بہتر جانتے ہیں۔ مگر میاں نواز شریف کی سیاست اور گزرتی عمر کو نشانہ بناتے ہوئے شاید انہیں یہ خیال بھی آتا ہوگا کہ اُن کے اپنے بابا سائیں بھی نواز شریف، عمران خان اور دوسرے بزرگ سیاستدانوں کے ہم عصر ہیں۔ وہ علی الاعلان کہتے ہیں کہ بابے آرام کریں، ہمیں موقع دیں۔ خود آصف زرداری نے تو بہت واضح الفاظ میں بتا دیا ہے، کہ اگر مریض کا مناسب علاج کر دیا گیا تو ہمارے پاس کون آئے گا، اور ہماری آمدنی کا مستقل سلسلہ بند ہو جائے گا۔ مگر اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ بلاول کے لہجے، اقوال اور بیانئے کے پیچھے آصف زرداری کا تجربہ ہی کارفرما ہے۔ بابوں نے جو کچھ کرنا تھا کر لیا، برسوں سے بلاول سیاست کے خار زار میں ہیں، سندھ میں کیا تبدیلی برپا کی؟
بوڑھے سیاستدانوں کو آرام کا مشورہ دینے والی اِس نوجوان قیادت کا کہنا ہے کہ فلاں نے تین باریاں لیں ہیں، کون سا تیر چلایا ہے جو چوتھی باری میں چلا لیں گے۔ سوال تو بہت معقول ہے، مگر یہی سوال اگر بلاول سے بھی ہوجائے، کہ آپ کے بڑوں نے بھی ملک پر حکومت کرنے کی چار باریاں لی ہیں،ہاں تِیر البتہ انہوں نے چلایا ہے، کیونکہ اُن کا انتخابی نشان ہی تیر ہے، بلکہ ایک دفعہ تو تلوار بھی چلا دی تھی۔ کوئی تیر چلائے یا تلوار، یہاں شیر دھاڑے یا سائیکل چلے، باریوں کا سلسلہ بڑے سلیقے سے چل رہا ہے۔ اگر تبدیلی بلاول جیسی نوجوان قیادت لا سکتی ہے، تو دیگر وراثتی جماعتوں کی اولادیں بھی اِسی منصب کی امید وار ہیں، اُن کا بھی دعویٰ ہے کہ حالات کو وہی سدھار سکتے ہیں۔
اگر ملک کی حالت بہت خراب ہے اور اس کا نازک موڑ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا، تو اِس کی ذمہ داری بھی اُنہی پارٹیوں کے کاندھوں پر ڈالی جائے گی، جنہوں نے حکمرانی کی باریاں لیں، سوا چار مرتبہ پیپلز پارٹی، سوا تین بار مسلم لیگ نون اور ایک دفعہ تحریکِ انصاف۔ اگر تین چار کی تعداد پوری کرنی ہے تو پھر تحریکِ انصاف کو موقع ملنا چاہیے، تاکہ وہ بھی فخر سے اپنی باریاں گنوا سکیں۔ مگر کارکردگی دیکھیں تو پی ٹی آئی نے ایک مرتبہ میں ہی مہنگائی کا وہ طوفان برپا کیا کہ سب کو نانی یاد آگئی، خزانہ کے وزیر ہر چند ماہ کے بعد تبدیل ہوتے رہے، مگر خزانہ تھا کہ کسی سے سنبھل نہ پایا، پنجاب کی وزارتِ علیا کی کرسی پر مٹی کا ایک مادھو بٹھا دیا گیا، اس دور میں کچھ کام تو ہوتا دکھائی نہیں دیا، البتہ تقریریں بہت ساری سننے کو مل گئیں، بیانئے اور یو ٹرن کلچر کافی فروغ پذیر ہوگیا، گالی گلوچ اور نام بگاڑنے میں قوم کو کافی مہارت میسر آگئی۔ مہنگائی میں اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ پی پی اور ن لیگ کی اتحادی حکومت نے پوری کر دی۔ بلاول سمیت کوئی سیاست دان قوم کو بتا سکتا ہے، کہ ملک میں تعلیم، صحت، زراعت ، صنعت اور سیاحت وغیرہ فروغ کیوں نہیں پا سکیں؟ کرپشن میں معمولی بھی کمی کیوں واقع نہیں ہو سکی؟ ہر شعبہ زوال پذیر بلکہ اختتام پذیر کیوں ہو رہا ہے؟ مقتدر طبقہ مراعات کے نام پر اپنی عیاشیوں میں مسلسل اوپر اور عوام کی معاشی حالت تسلسل کے ساتھ نیچے کیوں جا رہی ہے؟؟ بلاول صاحب! یہ سب کچھ آپ کے بزرگوں اور اُن کے ہم عصر سیاستدانوں کا کِیا دھرا ہے۔

جواب دیں

Back to top button