آج کے کالمڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے العزیزیہ سٹیل ملز کیس میں میاں محمد نواز شریف کی حالیہ بریت پاکستان کے سیاسی اور عدالتی منظر نامے میں آج کی ایک اہم خبر کے طور پر شہ سرخیوں، بریکنگ نیوز اور ہیڈ لائنز کی زینت بنی ہوئی ہے۔ یہ فیصلہ ایون فیلڈ ریفرنس میں میاں محمد نواز شریف کی 11 سال کی قید کی سزا کو کالعدم قرار دینے کے بعد سامنے آیا ہے، جس سے ملک کے احتسابی نظام اور قانونی کارروائی کے راستے کو مزید نئی شکل دی گئی ہے۔
العزیزیہ ریفرنس نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران ان کے صاحبزادے حسین نواز کی جانب سے سعودی عرب میں العزیزیہ سٹیل ملز اور ہل میٹل کمپنی کے قیام سے متعلق الزامات سے جنم لینے والا ایک سیاسی ایشو تھا جو کہ آج کے عدالتی فیصلے کے بعد پاکستان کی سیاسی گفتگو کا ایک خاص موضوع بنا ہوا ہے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کی عدالت نے اپنے فیصلے میں زور دے کر کہا تھا کہ نواز شریف ان اداروں کے حقیقی مالک تھے، اس دعوے کو جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ سے تقویت ملی تھی جس میں نواز شریف کے ہل میٹل کمپنی سے نمایاں مالی فوائد کی نشاندہی ہوئی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کا اس ریفرنس میں نواز شریف کو بری کرنے کا فیصلہ، شواہد کی تشریح، احتساب کے معیارات اور کارپوریٹ ڈھانچے میں ملکیت اور فوائد کی وضاحت کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتا ہے۔ عدالت کا سزا کو کالعدم کرنے اور عوامی عہدہ رکھنے پر پابندی ہٹانے کا فیصلہ قانونی کارروائیوں کی پیچیدگیوں اور سیاسی میدان پر ان کے اثرات کو واضح کرتا ہے۔
اس تاریخی فیصلے کا باعث بننے والے واقعات کی ٹائم لائن کو نوٹ کرنا ضروری ہے: احتساب عدالت کی جانب سے نواز شریف کو سات سال قید کی ابتدائی سزا کے ساتھ ساتھ کافی جرمانہ، اور عوامی عہدے سے ایک دہائی تک کی پابندی لگائی گئی تھی اور ایون فیلڈ اور العزیزیہ دونوں ریفرنسز میں سزا کے خلاف اپیلوں کی بعد ازاں بحالی نے حالیہ فیصلوں میں نواز کو ریلیف ملا ہے۔ ان فیصلوں کا نتیجہ دونوں مقدمات میں نواز شریف کی آج عدالت عالیہ سے بریت پر منتج ہوا ہے۔
العزیزیہ ریفرنس کی پیچیدگیاں ملکیت کے دعوئوں، مالی فوائد اور سٹیل ملز اور متعلقہ اداروں کے ساتھ نواز شریف کی مبینہ وابستگی کے گرد گھومتی ہیں۔ نواز شریف کو بری کرنے کا عدالتی فیصلہ نیب اور جے آئی ٹی کی جانب سے پیش کردہ بیانیہ کو چیلنج کرتا ہے، جس میں بین الاقوامی کاروباری معاملات میں قصوروار اور ملکیت کے قیام میں شامل پیچیدگیوں کا اعادہ کیا گیا ہے۔
یہ پیشرفت پاکستان کی سیاسی حرکیات پر اہم اثرات رکھتی ہے، کیونکہ نواز شریف کی بریت ممکنہ طور پر ملک کے سیاسی منظر نامے میں طاقت اور اثر و رسوخ کے توازن کو تبدیل کر سکتی ہے۔ سابق وزیر اعظم کے لئے قانونی تعطل ان کی سیاسی بنیاد سے نئے جوش اور حمایت کا باعث بن سکتا ہے، ممکنہ طور پر مستقبل قریب میں سیاسی اتحادوں اور حکمت عملیوں کی شکل بدل سکتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو بری کرنے کا فیصلہ پاکستان میں احتساب، قانونی کارروائیوں اور سیاسی اثرات کے بارے میں گفتگو کا از سر نو جائزہ لیتا ہے۔ یہ ملک کے عدالتی نظام میں ثبوت کے معیارات، ملکیت کی وضاحت اور قانون اور سیاست کے درمیان مداخلت کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتا ہے۔ جیسے ہی نواز شریف اس قانونی کہانی سے باہر نکلتے ہیں اس کی عدالت سے بریت کے اثرات آنے والے برسوں تک پاکستان کے سماجی و سیاسی منظر نامے پر دوبارہ سر اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔
رحمت عزیز خان چترالی اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں۔
rachitrali@gmail.com

جواب دیں

Back to top button