حضرت خواجہ سلطان ابراہیم بن ادھم بلخیؒ

ضیا سرحدی
برصغیر میں اسلام کی ترویج و ترقی میںبزرگان دین کا کرداربڑا اہم ہے جن کی بدولت یہ خطہ اسلام کی لازوال دولت سے مالا مال ہوا ہے ان صاحبان طریقت میں ایک ہستی فخرِ شیوخ عالم حضرت خواجہ سلطان ابراہیم بن ادھم بلخی ؒ کی ہے آپ کا شمار سلسلہ چشتیہ کے اعظم بزرگوں میں ہوتا ہے آپ کی کنیت ابو اسحاق ہے آپ ادھم بن سلیمان بن منصور بلخی شاہانِ بلخ کی اولاد میں سے تھے بعض لوگ آپ کو سید حسینی بھی بتاتے ہیں آپ کی ولادت شہر بلخ میں ہوئی خرقہ خلافت آپ کی سراج الواصلین حضرت خواجہ فضیل بن عیاض ؒ سے ملا ، ان کو خرقہ خلافت قطب المشائخ شیخ الاسلام حضرت شیخ عبدالواحد بن زید ؒ سے ملا ان کوخرقہ خلافت قطب الاقطاب حضرت خواجہ حسن بصری ؒ سے ملا اور ان کو خرقہ خلافت امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے ملا۔آپ کا نسب نامہ ابراہیم بن ادھم بن سلیمان بن منصور بن ناصر بن عبد اللہ بن امیر الموالمنین تک جا پہنچتا ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہٗ ،حضرت خواجہ جنید بغدادی ؒ فر ماتے ہیں کہ فصحا شیخ العلوم (علوم کی چابی ) ابراہیم ادھم ؒ ہیں لیکن ان تمام کمالات کے باوجود آپ اپنے حال پر رویا کرتے تھے بلخ سے آپ ؒنیشا پور آئے اور وہاں کی مشہور غار میں نو سال تک مقیم رہ کر عبادت و ریاضت میں مشغول رہے کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس غار کے اندر کیا ہو رہا ہے ہر جمعرات کے دن آپ اس غار سے باہر آکر لکڑیوں کا گھٹا جمع کرتے اور شہر جا کر فروخت کر دیتے اور جو کچھ وصول ہوتا اس سے روٹی خریدتے آدھی خیرات کرتے اور جمعہ کی نماز ادا کر کے پھر غار میں چلے جاتے ۔آپ ایک رات تخت سلطنت پر سوئے ہوئے تھے کہ محل کی چھت ہلنے لگی آپ جاگ گئے اور پکارا کہ اوپر کون چل رہا ہے جواب ملا کہ اونٹ گم ہو گیاہے تلاش کر رہا ہوں آپ نے خفا ہو کر کہا کہ اے احمق چھت پراونٹ کس طرح آکر چل سکتا ہے ادھر سے جواب ملا کہ اے غافل انسان خدا قادر و مطلق ہے وہ اگر چاہے تو اونٹ کو محل کی چھت پر کسی حکمت عملی سے پہنچا سکتا ہے لیکن تو جو اطلس و کمخواب کے کپڑے پہن کر اور گدے دار بستر پر آرام کر کے خدا کو تلاش کرتا پھر تا ہے یہ کیسی نادانی ہے یہ کہہ کہ وہ شخص غا ئب ہو گیا سلطان ابراہیم ادھم ؒ کے دل میں یہ بات جا کر چبھ گئی آپ بلخ کا تاج و تخت چھوڑ کر فقیرودرویش کے تخت پر بیٹھ گئے اور اسی وقت اٹھ کر تمام شاہانہ لذتوں سے منہ موڑ لیا اور صحرا کی طرف نکل گئے راستے میں ایک چرواہا ملا اس کو اپنے قیمتی کپڑے دے دیئے اور اس سے ٹاٹ لگے کپڑے خود پہن لئے بلخ کی بادشاہی ترک کرنے کے بعد آپ ایک ویرانے میں گوشہ نشین ہو گئے ایک دن صبح جب آپ کے صاحبزادے اور جانشین کے نام کی نوبت بج رہی تھی آپ کے دل میں یہ خیال آیا کہ سبحان اللہ ایک وقت ایساتھا کہ میرے نام کی نوبت بجتی تھی اور آج میرے صاحبزادے کی نوبت بج رہی ہے اسی وقت غیب سے آواز آئی کہ اللہ نے حکم فر ما یا ہے کہ جب ابراہیم ؒ کے دل میں ایسا خطرہ پیدا ہوگیا ہے تو آج سے قیامت تک ان کے نام کی نوبت عالم ملکوت ساتویں طبق آسمان پر بجائی جائے (سبحان اللہ)ایک دن آپ دریا کے کنارے بیٹھے کپڑا سی رہے تھے کہ ایک شخص نے آکر سوال کیا کہ بلخ کی سلطنت چھوڑ کر آپ کو کیا حاصل ہوا ہے آپ نے اپنی سوئی دریا میں ڈال دی ۔ اورمچھلیوں کو حکم دیا کہ میری سوئی لائو ۔ یہ کہتے ہی ہزاروں مچھلیاں اپنے منہ میں سونے کی سوئیاں لے کر باہر نکل آئیں آپ ؒ نے فر ما یا مجھے اپنی لوہے کی سوئی درکار ہے ایک کمزور مچھلی ان کی سوئی لے کر باہر آئی آپ نے اس شخص سے فر ما یا یہ ہے کم ترین مرتبہ جو میں نے سلطنت چھوڑ کر پا یا ہے ۔شیخ فر ید الدین عطار ؒ فرماتے ہیں کہ خواجہ ابراہیم ادھم ؒ جب بلخ چھو ڑ کر مکہ معظمہ چلے گئے توبعد میں ان کا ایک چھوٹا لڑکا جو جوان ہو گیا تھا اس نے دریافت کیا کہ میرا باپ کہاں ہے ۔ اس کی والدہ نے سا را ماجرہ سنایا اور بتایا کہ اب وہ مکہ میں مقیم ہے پس لڑکا باپ کی زیارت کیلئے مکہ پہنچا آپ نے جب اسے دیکھا تو شفقتِ پدری نے غلبہ کیا آپ نے اسے پاس بٹھا کر پوچھا کہ تم کس دین پر ہو اس نے جواب دیا دین محمدی ﷺ پر ہوں آپ نے کہا الحمد اللہ آپ بیٹے کے ساتھ اس قدرمہر بانی سے پیش آئے کہ آواز آئی کہ ہماری دوستی کا دعویٰ کرتے ہو اور دل بیٹے کے ساتھ لگا تے ہو آپ نے عرض کیا کہ الٰہی جو کچھ میرے اور آپ کے درمیان حجاب ہوا ہے اسے اٹھا لے یہ کہنا تھا کہ آپ کا بیٹا فوت ہو گیا ۔ اسی زمانے کاذکر ہے کہ ایک دن سخت سردی پڑی یہاں تک کہ خواجہ ابراہیم ادھم ؒ کے وضو کا پانی بھی جم گیا اگرچہ مجبوری کی حالت میں تیمم کا شرعی عذر موجود تھا لیکن آپ کا دل نہیں مانا اور اسی برف کو توڑ کر یخ بستہ پانی سے وضو کیا پھر نماز میں مشغول ہو گئے ۔ نماز کے دوران آپ کے دل میں خیال گزرا کہ اگراس وقت آگ ہو تی تو شدید سردی سے بچ جاتا یہ ایک شیطانی وسوسہ یا نفس کا تقاضا تھا آپ نے اس خیا ل کو ذہن سے نکالا اورپوری یکسوئی کے ساتھ نماز ادا کرنے لگے کچھ دیر بعد خواجہ ابراہیم ادھم کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے کسی غیبی ہاتھ نے آپ کو پوستین پہنا دی ہے جس کی وجہ سے شدید سردی کے اثرات زائل ہو گئے ۔ پھر جب آپ ؒ نے نماز ختم کی تو آپ ؒ نے ایک عجیب منظر دیکھا جسے پوستین سمجھ رہے تھے و ہ ایک اژدھا تھا جوایک چادر کی طرح آپ کے جسم سے لپٹا ہوا تھا ۔ حضرت ابراہیم بن ادھم ؒ نے مسکراتے ہوئے اژدھا کی طرف دیکھا اور پھر بڑے کیف و جذب کے عالم میں فر ما یا ’’ تیرا شکریہ کہ تو نے اپنے خالق کے حکم سے اسکے ایک بندے کی مددکی، یہ سن کر اژدھا نے اپنے بل کھولے اور رینگتا ہوا غار سے نکل گیا ۔حضرت ابراہیم بن ادھم بلخی ؒ کے دو کامل اور جید خلیفہ تھے ایک خواجہ حذیفہ مرعشی ؒ اور دوسرے خواجہ شفیق بلخی ؒ آپ کو آخری زندگی میں کسی جگہ قرار نہیں ملتا تھا شیخ فرید الدین عطار ؒ فر ماتے ہیں کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ کا مزارمبارک بغداد شریف میں امام احمد حنبل ؒ کے مزار کے قریب ہے ،بعض نے ملک شام میں حضرت لوط علیہ السلام کے مزار کے پاس ہے جبکہ بعض لوگوں نے مدینہ منورہ بتلایا ہے آپ کا وصال 26 جمادی الاول سال 280 ھ کو شام میںہوا آپ کی عمر ایک سو دو برس کی تھی اور اسی تاریخ کو ملک کے دوسرے شہروں کی طرح پشاور میں عرس مبارک کی تقریبات پیر صاحب تمبر پورہ شریف رئیس الفقراء حضرت پیر سید مستان شاہ سرکار حق با باؒ کے صاحبزادے پیر سید عنایت شاہ باچا عرف موتیاں والی سرکارکے زیر سرپرستی ختم خواجگان میلاد ہاؤس گلبہار پشاور میں منعقد ہواجس میں شجرہ شریف ، چشتیہ صابریہ پڑھا جا تا ہے اور لنگر شریف تقسیم کیا جاتا ہے اس کے علاوہ سید عنایت شاہ باچا خصوصی دعا فر ما تے ہیں جس میں عقیدت مند گلہائے عقیدت پیش کر کے روحانی کیف و سرور کے ساتھ دنیا و آخرت کی سر بلندی و سر فرازی کی دولت سے ما لا مال ہو کر واپس جاتے ہیں۔
ziaulhaqsarhadi@gmail.com