گلگت بلتستان: حالیہ دہشت گرد حملہ

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
شمالی پاکستان کے گلگت بلتستان کے علاقے چلاس میں ایک مسافر بس پر حالیہ حملہ نے عوام کو ایک بار پھر پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ پاکستان میں دھشت گردی کے بار بار واقعات رونما ہورہے ہیں خصوصاً شمالی پاکستان میں دہشت گردی کے مسلسل خطرے کی وجہ یہاں کے شہری کافی مشکلات کا شکار ہیں۔ اس دھشت گردانہ حملے کے نتیجے میں کئی قیمتی جانوں کا المناک نقصان ہوا ہے جس میں دو پاکستانی فوجیوں سمیت 9 افراد شہید اور 25 زخمی ہوئے ہیں۔ اس خوفناک واقعے سے نبردآزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ تاریخی تناظر میں ان حملوں کے پیچھے چھپے محرکات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے، تشدد کی ایسی کارروائیوں کی مذمت کی جائے، اور محفوظ مستقبل کے لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا راستہ طے کیا جائے۔
گلگت بلتستان طویل عرصے سے جغرافیائی سیاسی پیچیدگیوں سے دوچار خطہ رہا ہے، جو علاقائی طاقتوں کے اسٹریٹجک مفادات کے سنگم پر واقع ایک حساس خطہ ہے۔ علاقے کے ناہموار علاقے اور جغرافیائی سیاسی اہمیت نے اسے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کے لیے ایک خطرناک ہدف بنا دیا ہے۔ قراقرم ہائی وے پر حالیہ دھشت گردی کے حملے نے حالیہ دنوں میں شمالی پاکستان میں بڑھتے ہوئے تشدد میں اضافہ کیا ہے۔
بلاشبہ یہ واقعہ دہشت گردی کی کارروائی ہے جو دھشت گردوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے پریشان کن رجحان کو اجاگر کرتا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے اعدادوشمار حملوں میں پریشان کن اضافے کو ظاہر کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں بے شمار ہلاکتیں اور لاتعداد افراد زخمی ہوئے۔ یہ اعداد و شمار دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر کو روکنے کے لیے جامع حکمت عملی کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
پاکستان ان دنوں دہشت گردی کے خلاف اپنی انتھک جنگ میں مصروف ہے اور ہماری پاک فوج ان خطرات کا مقابلہ کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔ تاہم پڑوسی ملک کابل کے زوال کے بعد دہشت گردانہ سرگرمیوں کا دوبارہ سر اٹھانا ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ سرحد پار عناصر کی جانب سے دھشت گردوں اور دیگر گروپوں کو فراہم کی جانے والی مبینہ حمایت اور پناہ گاہیں قومی سلامتی کے لیے اہم چیلنجز ہیں۔
پاکستان کو اس دھشت گردانہ خطرے سے نمٹنے کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کی مسلح افواج کا عزم قابِل تحسین ہے جیسا کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے بھی آرمی کے جوانوں کے عزم و ولولے کی تعریف کی ہے، پھر بھی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ حکومتی ایجنسیوں، سیکورٹی فورسز، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی تعاون پر مشتمل مشترکہ کوششوں کا تقاضا کرتا ہے۔
اس بات کو بھی تسلیم کیا جائے کہ دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کرنے کی کوششوں میں مضبوط انٹیلی جنس آپریشنز اور ٹارگٹڈ زمینی مداخلت شامل ہونی چاہیے۔ مزید برآں عسکریت پسند گروپوں کو پناہ دینے یا ان کو فعال کرنے والے اداروں اور افراد سے ذمہ دارانہ کارروائیوں پر زور دینے کے لیے سفارتی کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے۔ ان اتحادوں اور نیٹ ورکس کو توڑنا ضروری ہے جو تشدد اور دھشت گردی کو دوام بخشنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ بنیاد پرستی کا مقابلہ کرنے اور امن کے فروغ کے لیے سول سوسائٹی کی فعال شرکت بھی ناگزیر ہے۔ تعلیم اور کمیونٹی کی شمولیت کے اقدامات انتہا پسندانہ نظریات کے خلاف لچک پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی کوششوں کی حمایت میں عالمی برادری کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ باہمی انٹیلی جنس شیئرنگ، سرحدی حفاظتی اقدامات اور دہشت گرد گروپوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے والے غیر ریاستی عناصر پر دباؤ علاقائی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے اہم اقدامات ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شمالی پاکستان کے خطے گلگت بلتستان میں حالیہ حملہ دہشت گردی کے خلاف متحدہ محاذ کی فوری ضرورت کو واضح کرتا ہے۔ اس وقت گلگت بلتستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے عوام اور انتظامیہ کی طرف سے اجتماعی کارروائی کی اشد ضرورت ہے۔ مسلسل کوششوں، مشترکہ حکمت عملیوں اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعے پاکستان دہشت گردی کی لعنت سے آزاد ہونے والے مستقبل کے لیے کوششیں تیز کر سکتا ہے، اور اس طرح اپنے لوگوں کے لیے دیرپا امن کے ساتھ ساتھ خوشحالی کو بھی فروغ دے سکتا ہے۔
رحمت عزیز خان چترالی اردو، انگریزی اور کھوار میں لکھتے ہیں۔
rachitrali@gmail.com