صرف ڈرائیونگ لائسنس ہی مسئلے کا حل نہیں!

محمد انور گریوال
شہر میں داخل ہونے والی بڑی سڑک پر ایک کوچ نے ایک خاتون کو کچل دیا، وہ اپنی سکوٹی پر جارہی تھیں، ان کی دو بیٹیاں بھی ان کے ساتھ تھیں، وہ ایک نجی سکول کی پرنسپل تھیں۔ خاتون موقع پر ہی جان سے گئیں، دونوں بچیاں محفوظ رہیں، پورا شہر سوگوار ہو گیا ، زندگی اور موت دینے والے کی منصوبہ بندی بھی کیسی ہے؟ شہروں میں سکوٹیوں پر سفر کرنے والی بچیوں کو دیکھ کر دل سے دعا نکلتی ہے۔ انہی دنوں پنجاب حکومت کی جانب سے کم عمر لڑکوں کے موٹر سائیکل اور گاڑی وغیرہ چلانے کے خلاف مہم جاری تھی۔ گاڑی یا موٹر سائیکل چلانا اور شناختی کارڈ کے حامل افراد کے پاس ڈرائیونگ لائسنس کا ہونا الگ الگ معاملات ہیں۔ بسا اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ سات آٹھ سال کا بچہ موٹر سائیکل چلا رہا ہے اور ان کے والدِ محترم پیچھے بیٹھے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہوتے کہ ان کے ہونہار بچے نے دو ٹانگوں پر چلتے چلتے دو پہیوں کی گاڑی سنبھالنا شروع کر دی ہے۔ اس عمل پر غیر مہذبانہ تبصرہ یہاں مناسب نہیں، جن کا بس نہیں چلتا وہ کچھ کر نہیں سکتے اور جن کا بس چلتا ہے وہ انہیں کچھ کہتے نہیں۔
جو لڑکے چھوٹی عمر میں موٹر سائیکل وغیرہ چلانا شروع کر دیتے ہیں، اس کے پیچھے دو ہی باتیں کار فرما ہوتی ہیں، اول یہ کہ گھر میں کوئی بڑا مرد نہیں، اور مسائل موٹر سائیکل کے بغیر حل نہیں ہوتے، دوم یہ کہ بچے کی ضد اور گھر والوں کے لاڈ پیار کے چکر میں اپنی حیثیت کے مطابق موٹر سائیکل یا گاڑی بچے کے حوالے کر دی جاتی ہے، گرتے پڑتے پختگی آ ہی جاتی ہے۔ مگر جب عمر بھی بہت کم ہو اور دولت کا خمار بھی ہو تو لاہور جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اور اگر عمر کم ہے اور نوبت مجبوری تک پہنچی ہوئی ہے تو پھر چنگ چی کا اُنہی دنوں لودھراں بہاول پور روڈ پر حادثہ ہوا تھا جس میں آدھ درجن کے قریب افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اِس میں تو کوئی دو رائے ہیں ہی نہیں کہ بہت چھوٹی عمر میں موٹر سائیکل یا گاڑی چلانے کے لئے اپنے بچوں کے کسی صورت حوالے نہیں کرنی چاہیے، ایسا کرکے انسان خطرہ خود مول لیتا ہے۔ شہروں کے اندر بڑھتی ہوئی مجبوریاں اور مسائل کے پیشِ نظر میٹرک کے طلبہ کو کسی حد تک اجازت دینے کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔
ڈرائیونگ لائسنس اور چھوٹی عمر کے لڑکوں کے گاڑیاں اور موٹر سائیکل چلانے کے سلسلے میں حکومت نے جس قدر سختی کی ہے، اُس سے معاملات میں تو جو کچھ بہتری آئے گی،چالان کی صورت میں قومی خزانے میں جتنا کچھ اضافہ ہوگا،وہ تو الگ کہانی ہے، البتہ پولیس کی آمدنی میںبہت معقول اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کسی کو رنگے ہاتھوں پکڑا، تھانے لے گئے، یا راستے میں ہی ڈیل ہو گئی اور عام حالات سے کافی بہتر پیکیج پر معاملہ طے پا گیا، یوں دونوں پارٹیاں مطمئن ہو کر خوشی خوشی اپنے گھروں کو سدھارتی ہیں۔ ٹریفک پولیس تو مستقل بنیادوں پر بھی عوامی لوٹ مار کا بازار گرم رکھے ہوئے ہے۔ محکمہ پولیس کی اعلیٰ قیادت کو بھی معاملات کا علم ہے، مگر اس عمل کو روکنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ کون کس کی نگرانی کرے گا؟ عوام کا یہ مطالبہ بھی سوفیصد حق بجانب ہے کہ بچوں کو سکولوں تک جانے کے لئے ٹرانسپورٹ کا سرکاری بندوبست کیا جائے اور دوسرا یہ کہ اگر وہ ڈرائیونگ نہیں کر سکتا تو ’’چائلڈ لیبر‘‘ کیوں کروائی جاتی ہے؟
گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے کے لئے لائسنس کا ہونا یقینا اہم اور ضروری ہے، قانون کی پاسداری کے لئے بھی ایسا کرنا مجبوری ہے۔ اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ سڑک پر چلتی گاڑیوں میں شاید بیس فیصد لوگ بھی لائسنس یافتہ نہیں ہوتے۔ چلی جارہی ہے خدا کے سہارے کے مصداق کام چل رہا ہے، اگر کبھی کہیں نقصان ہو گیا تو حکومت نے انگڑائی لی ، رپورٹیں طلب ہوئیں، ایکشن لیا اور مہم کا آغاز کر دیا گیا، اگر کوئی غیر معمولی واقع رونما نہیں ہوا تو کانوں میں تیل ڈال کر سوئے رہے۔ ہاں عید وغیرہ کے موقع پر پولیس نے اپنی عیدی وغیرہ وصولنے کے لئے بھی چالان کا طریقہ رائج کر رکھا ہوتا ہے۔
جو افراد لائسنس یافتہ ہیں، اُن کی کہانی بھی کچھ قابلِ تحسین نہیں۔ اچھی بھلی بڑی سی گاڑی چلانے والے کے عمل سے جہالت ٹپک رہی ہوتی ہے، نہیں معلوم اُس نے ڈرائیونگ میں جہالت کا مظاہرہ کرنے کے لئے لائسنس کا سہارا لے رکھا ہوتا ہے یا وہ لائسنس کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ انہیں ہر غیر قانونی کام کا لائسنس مل گیا ہے۔ وہ کسی چھوٹی سڑک سے بڑی پر چڑھیں، یا کسی چھوٹی سڑک پر مڑنا ہو، تو اشارہ دینے کا تکلف بالکل نہیں کرتے۔ آگے ٹریفک بلاک ہو تو ہارن مارنے کا شوق ضرور پورا کرتے ہیں، سامنے سڑک پر سے کوئی مجبور پیدل سڑک پار کرنا چاہتے ہیں تو گاڑی نہیں روکتے، موٹر وے پر بھی پاپڑ کھا کر ریپر باہر پھینکنے سے باز نہیں آتے، سامنے راستہ ہونے کے باوجود پیچھے آنے والے کو رستہ نہیں دیتے۔ یہ تمام کام کرنے والوں کے بارے میں اگر سروے کیا جائے تو اُن میں لائسنس کے حامل بھی اسی قدر شامل ہوتے ہیں، جتنے غیر لائسنس یافتہ۔
والدین کو اپنے چھوٹے بچوں کی شوخی اور ضد پر مجبور ہونے کی بجائے بچوں کو سائیکل سواری کی ترغیب دینی چاہیے، شہر کے اندر سکول جانے کی حد تک تو سائیکل چلائی جا سکتی ہے، سائیکل سواری کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سے پٹرول کی بچت کے ساتھ سموگ اور آلودگی میں کمی ممکن ہو سکتی ہے۔ مگر اس عمل کے لئے عزمِ صمیم درکار ہے، جس کا حصول ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ اس مسئلے کا دوسرا اہم ترین حل یہ ہے کہ مڈل سکول سے ہی ہمارے نصاب میں ڈرائیونگ کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے، ٹریفک کے اصول اور آداب بتائے جائیں، اس سلسلے کی تمام ضروری باتیں بچوں کو ازبر کروا دی جائیں ، اس میں اِس امر کا بھی خیال رکھا جائے کہ ڈرائیونگ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت (تہذیب) کا بھی بھر پور اہتمام کیا جائے، تاکہ بڑوں کی ڈرائیونگ میں بچے بھی اُن کی غلطی پر نشاندہی کر سکیں۔ نصاب میں شامل اِس باب کو امتحان میں لازمی شامل کیا جا سکے۔ سال میں مختلف مواقع پر ٹریفک پولیس کو بھی سکولوں میں بچوں کو اس ضمن میں آگاہی دینے کا بندوبست ہونا چاہیے۔ ڈرائیونگ کی بہتری کے لئے خراب سڑکوں کی حالت کو بہتر کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ والدین کا بھی فرض ہے کہ وہ ٹریفک کے قوانین کی پابندی کرنے میں اپنے فرائض نبھائیں۔