کون بتائے گا ؟

مسلم لیگ نون کے قائد میاں محمد نوازشریف نے ایک بار پھر پوچھ لیا ہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ تاہم آج تک اِنہیں اِس سوال کا جواب نہیں ملا مگر ابھی تک معلوم نہیں پڑسکا کہ میاں محمد نوازشریف یہ سوال کس سے کرتے ہیں کیا اِن کا سوال کسی ادارے سے ہے یا کسی شخصیت سے۔ بہرکیف جب وہ یہی سوال دھراتے ہیں تو ساتھ ہی اپنے ادوار کی ترقی اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات سمیت اپنی حکومت کی کارکردگی بھی بیان کرتے ہیں۔ جیسا کہ تازہ خطاب میں انہوں نے جو کچھ کہا بلاشبہ وہ برسراقتدار آنے کے بعد اِن کی حکمت عملی معلوم ہوتی ہے۔ جیسا کہ پڑوسیوں سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں ۔بھارت، افغانستان، ایران سے بہتر، چین سے تعلقات مزید مضبوط اور مستحکم کرنا ہوں گے۔ میرے دور میں ترقی عروج پر تھی،کوئی مسئلہ نہ تھا ،جب میں وزیر اعظم تھا دنیا اعتراف کر رہی تھی پاکستان آگے بڑھ رہا ہے،ہمارے دور میں بھارت کے دو وزرائے اعظم یہاں آئے، اس سے پہلے کب کوئی یہاں آیا تھا، ہمسایوں سے ناراضی سے دنیا میں مقام حاصل کرنا کیسے ممکن ہے۔پھر اناڑی کو ملکی باگ ڈور کیوں دی گئی،ہر دفعہ ہم نے اچھے اچھے کام کیے لیکن ہر دفعہ ہمیں نکال دیا گیا ، مجھے پتا لگنا چاہیے کہ 93ء اور 99ء میں مجھے کیوں نکالا گیا، ہم نے کہا کہ کارگل لڑائی نہیں ہونی چاہیے تھی کیا اس لیے نکالا گیا، وقت ثابت کررہا ہے کہ ہم صحیح تھے وہ فیصلہ بھی ہمارا صحیح تھا۔ میاں نوازشریف نے ایسی اور بھی باتیں کہی ہیں مگر سوال پھر وہی اُٹھتا ہے کہ وہ کس سے جواب طلب کرتے ہیں اور انہیں جواب کیوں نہیں دیا جاتا۔ دوسری طرف چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے تیمر گرہ میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوازشریف پھر دو تہائی اکثریت مانگ رہے ہیں، انہیں حکومت دلوانے والوں کو چوتھی بار بھی بھگتنا پڑے گا، جو تین بار وزیراعظم بن کر فیل ہوا وہ چوتھی بار کیا تیر مارے گا، نواز شریف چوتھی بار بھی سلیکٹ ہوکر آئے تو نہ میں اور نہ عوام مانیں گے، پی ٹی آئی سربراہ کو سمجھایا تھا کہ امپائرکی انگلی پر بھروسہ نہ کریں ، مجھے کیوں نکالا کہتے کہتے یہ لندن کے ایون فیلڈ پہنچے اور وہاں سے انقلاب لانے لگے۔ قبل ازیں پیپلز پارٹی نے چیئرمین پی ٹی آئی کو لاڈلا اور سلیکٹڈ کے نام سے مخاطب کیا اور اب میاں نوازشریف کو انتخابات سے قبل ہی لاڈلا کہہ کر مخاطب کیا جارہا ہے۔ بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا ہے کہ میاں نوازشریف چوتھی مرتبہ سلیکٹ ہوکر آئے تو نہ وہ خود انہیں مانیں گے اور نہ ہی عوام۔ پس یہی وہ الزامات ہیں جو پچھلی پی ٹی آئی کی حکومت پر لگے اور نئی اسمبلی کے حلف اٹھاتے ہی حزب اختلاف کی تمام جماعتیں سڑکوں پر نکل آئیں۔ اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ میاں نوازشریف کس سے پوچھتے ہیں کہ انہیں کیوں نکالا مگر ہر پاکستانی کی طرح ہمیں اتنا ضرور معلوم ہے کہ سیاسی قیادت کی اپنی کمزوریاں اور اقتدار کی خواہش جمہوری نظام کو کمزور کرتی آئی ہیں اور اب کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے بل بوتے پر اقتدار میں آنے پر کم ہی یقین رکھتی ہے۔ کیونکہ سیاست دانوں نے طاقت کا محور بدل لیا ہے، اسی لئے انہیں ملک و قوم کا مفاد اور عوامی فلاح و بہبود کی اتنی زیادہ فکر نہیں ہوتی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے سیاست دان ترقی یافتہ اور مہذب ممالک کے سیاست دانوں سے بہت پیچھے ہیں، لہٰذا یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیاست دان عوام اور اپنی کارکردگی پر توجہ دینے کی بجائے اپنی نگاہیں کہیں اور مرکوز رکھتے ہیں اور ہمہ وقت اِن میں ویسی ہی لڑائی چلتی ہے جیسے سوتنوں کے درمیان، ایک سیاسی جماعت طویل ’’ریاضت‘‘ کے بعد اقتدار میں آتی ہے تو دوسری سیاسی خود کو اچھی اور وفا شعار بیوی کی طرح تابعدار ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں لہٰذا بسا بسایا گھر اُجڑ جاتا ہے اور نئی دلہن جگہ لے لیتی ہے۔ چونکہ سیاسی جماعتوں کے اپنے پلے کچھ نہیں ہوتا یعنی انہوں نے عوام کو ڈیلیور نہیں کیا ہوتا لہٰذا وہ عزت انتخاب کی بجائے شارٹ کٹ اختیار کرتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے سابق وزیراعظم کو لاڈلہ اور سلیکٹ کہا پس ساری پی ڈی ایم نے یہی گردان شروع کردی، جب پی ٹی آئی کی حکومت آئینی مدت پوری کرنے سے قبل ہی اقتدار سے ہاتھ دھوبیٹھی تو پی ڈی ایم والوں کو امپورٹڈ کہا جانے لگا لہٰذا اب بڑے میاں صاحب کو بھی لاڈلہ کہہ کر پکارا جارہا ہے اور بلاول بھٹو بارہا یہ عندیہ دے چکے ہیں اگر میاں نوازشریف برسراقتدار آئے تو وہ انہیں تسلیم نہیں کریں گے۔ لہٰذا اِس غلط فہمی سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے کہ نئی حکومت آنے کے بعد ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور چیزیں بہتر ہوں گی بلکہ وہ تمام سیاسی قوتیں جو حکومت کا حصہ نہیں ہوں گی یا کسی وجہ سے اُس سے ناراض ہوں گی وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ سڑکوں پر آجائیں گی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ سیاست دان عوام کو ہی طاقت کا سرچشمہ سمجھیں، عوام کو ہی مطمئن کریں، اپنی کارکردگی بہتر بنائیں اور کارکردگی کی بنیاد پر عوام کی عدالت میں جائیں۔ جب تک سیاست دان ایک دوسرے کا گھر اُجاڑنے کی روش ترک نہیں کریں گے ان کے اپنے گھر بھی اُجڑتے رہیں گے اور شاید انہیں وجہ بھی معلوم نہیں ہوگی لہٰذا بہتر یہی ہے کہ میثاق جمہوریت کو دوبارہ تروتازہ کیا جائے، اس کے نکات ذہن نشین کئے جائیں اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالی جائے وگرنہ کوئی بھی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرسکے گی اور نہ ہی اِس کو کرنے دی جائے گی۔ چونکہ سیاست دان ہی ایک دوسرے کیخلاف ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں لہٰذا ان کے خلاف کسی کو سازش کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اوریہ خود ہی حشرسامانیوں کا بندوبست کرتے رہتے ہیں جو بوقت ضرورت اُن پر پڑ جاتی ہے۔ دنیا کی کسی جمہوریہ میں سیاسی مخالفین کیخلاف غیر جمہوری حربے استعمال ہوتے ہیں اور نہ ہی ایسا تصور بھی کیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں صرف یہی طرز عمل حصول اقتدار کے لئے اہم سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے عام ووٹرز بھی رجسٹرڈ ہونے کے باوجود پولنگ سٹیشن تک نہیں پہنچتے اور ہر بار ٹرن آئوٹ کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے کیونکہ اتنی شدت سے ووٹرز کے کان میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ لاڈلے، چہیتے، سلیکٹڈ اور ایسے دوسرے القاب حاصل کرنے والا ہی متوقع سربراہ حکومت ہوتا ہے ، پس ووٹرز گھر میں بیٹھ کر انتخابی عمل سے دور رہتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ سیاست دان یہ نہیں جانتے کہ ماضی میں بھی غلطیاں اُنہی سے ہوئیں اور آج بھی وہی غلطیاں وہ دھرا رہے ہیں، مگر کئے جارہے ہیں۔ پس جانتے بوجھتے ہوئے سبھی ایک دوسرے کیخلاف گڑھے کھودتے ہیں اور پھر خود بھی اِن میں گرجاتے ہیں۔