جنرل سید عاصم منیر کااہم خطاب

کسی بھی ریاست کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سرحدوں کا دفاع، شہریوں کو تمام بنیادی سہولیات اور کاروبارِ زندگی کے لئے آسان اور یکساں مواقعے فراہم کرنا شامل ہوتا ہے۔ اِس کے لئے ریاستیں دستیاب قدرتی وسائل پر انحصار کرتی ہیں اور بوقت ضرورت دوسری ریاستوں سے لین دین بھی کرتی ہیں۔ یہی صدیوں سے رائج نظام ہے کہ ریاستیں اپنی طلب سے زائد اشیا دوسری ریاستوں کو برآمد کرکے قیمتی زرمبادلہ کماتی ہیں اور جن اشیا کی ضرورت ہوتی ہیں اِن کو درآمد کرتی ہیں مگر اِس کے لئے قیمتی زرمبادلہ دینا پڑتا ہے جو برآمدات سے کمایا گیا ہوتا ہے۔ لیکن ہمارا حالیہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم معدنیات اور قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود معاشی لحاظ سے نیچے سے نیچے جارہے ہیں کیونکہ جنہوں نے اقوام عالم میں وطن عزیز کی شان بڑھانی تھی ابھی وہ باہمی مسائل میں اُلجھے ہوئے ہیں اور شاید پچھلی تین دہائیوں کی طرح مزید کچھ دہائیاں ان مسائل سے باہر نکلنے میں لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ منظم منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے ہم وہ تمام غلطیاں کررہے ہیں جن کی اقوام عالم میں قطعی گنجائش نہیں ہوتی۔ وطن عزیز کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، اسی لئے اجناس کی ضرورت بڑھ رہی ہے مگر کھیت و کھلیانوں کی جگہ ہائوسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں اور وہ کسان جو کھیتوں کھلیانوں کو ہرا بھرا کرتے تھے وہ کھیتی باڑی کا پیشہ ترک کرکے شہروں کا رخ کررہے ہیں، اسی طرح کم ترقی یافتہ بلکہ پسماندہ علاقوں کے لوگ بھی روزگار کے بہترین مواقعوں کے لئے بڑے شہروں کا رخ کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ بڑے شہروں میں دستیاب سہولیات ناکافی محسوس ہوتی ہیں اور قدرتی آفات جیسے بارش اور سیلاب وغیرہ کی وجہ سے بڑے شہر بھی پانی میں ڈوب جاتے ہیں اس صورت حال میں تصور کیجئے کہ جہاں اپنے ہم وطنوں کے لئے روزگار، تعلیم و صحت، کاروبار، روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرنے میں ریاست ناکام ثابت ہوتی رہی ہے وہیں اگر ہم چالیس پچاس لاکھ مہمان اِن محدود وسائل میں شراکت دار بنالیں جو خوراک،تعلیم و صحت، کاروبار غرضیکہ ہر شعبے میں شراکت دار بن جائیں تو ہمارا کیا حال ہوگا مگر ہم نے ایسا کیا ہے اور اب اِس کا نتیجہ بھی ہم بھگت رہے ہیں۔ وہ ہمارا کھاتے ہیں اور ہم پر ہی چلاتے ہیں۔ ہمیں ہی انکھیں دکھاتے ہیں اور بوقت ضرورت میزبانوں کو خون میں بھی نہلادیتے ہیں۔ درحقیقت جو خرابی ہماری قیادت سے شروع ہوتی ہے وہ نیچے تک پہنچتے ہوئے قانون اور حق جیسی کسی چیز کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ صاحب اختیار سمجھتا ہے کہ بے ایمانی، دھوکہ دہی، ملک و قوم کے ساتھ ظلم اُس کا بنیادی حق ہے اور ایسا کرنے کے لئے ہی اُسے اِس منصب پر بٹھایا گیا ہے۔ یہاں ہم پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کے پشاور میں خطاب کا حوالہ دینا چاہیں گے جنہوں نے کہا ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی پاکستان کی سلامتی اور معیشت کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ اس لئے ان کی وطن واپسی کا فیصلہ حکومت نے پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کیا ہے۔ غیر قانونی غیر ملکیوں کو طے شدہ اصولوں کے مطابق باعزت طریقے سے ان کے ملکوں میں واپس بھیجا جا رہا ہے۔ سربراہ پاک فوج جنرل سید عاصم منیر نے بھی وہی بات کی ہے جس کا مطلب واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی نہ صرف ہماری معیشت کو بری طرح متاثر کررہے ہیں بلکہ ہماری سلامتی کے لئے بھی مسائل پیدا کررہے ہیں اور ماضی میں بھی کرتے رہے ہیں۔ روس افغان جنگ کے نتیجے میں جو افغان مہاجرین یہاں پناہ لینے کے لئے آئے ہم نے نہ صرف اُن کے لئے ملک بھر کے راستے کھول دیئے بلکہ انہیں قومی شناختی کارڈ اور سبز پاسپورٹ تک بناکر دیدیئے حالانکہ وہ افغانی اور یہاں مہاجر کی حیثیت سے آئے تھے مگر اب وہ پاکستانی ہونے کے دعویدار بھی ہیں، ملک بھر میں پھیل چکے ہیں، وسائل میں برابر کے شراکت دار ہیں اور انہی میں سے کوئی اُٹھتا ہے اور کسی ادارے یا اہم مقام پر خود کو بارود سے اڑادیتا ہے۔ یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ماضی کے حکومتوں کے ہاتھ کس نے باندھے تھے کہ انہوں نے افغانوں سمیت تمام غیر ملکیوں کو اُن کے وطن واپس نہیں بھیجا اور اب نگران حکومت نے کیسے ان کی وطن واپسی کا عمل شروع کرادیا ہے۔ ہمارا بھی عجیب المیہ ہے، ہم نے کبھی اپنے ملک کو اپنا سمجھا ہی نہیں، نیچے سے اوپر تک سبھی یہاں خود کو بطور مہمان سمجھتے ہیں اور اگر مشکل میں پھنس جائیں تو کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہی نہیں تو پھر کیوں یہاں براجمان ہیں اور ناجائز کاموں کے ذریعے دولت کے پہاڑ کھڑے کررہے ہیں۔ ایک روز قبل ہم نے افغانوں کے زیراستعمال سبز پاسپورٹس کے معاملے پر بات کی اور بتایا تھا کہ قریباً چالیس ہزار کے لگ بھگ افغانوں کو سعودی عرب نے پکڑ کر واپس بھجوادیا ہے جو سبز پاسپورٹ لیکر سعودی عرب میں بطور پاکستانی ملازمتیں کررہے تھے۔ یہاں سوچنے کی ضرورت ہے کہ سعودی حکام اگر جعلی پاسپورٹ کے حامل افراد کو پکڑ سکتے ہیں تو انہیں پاسپورٹ جاری کرنے والوں کو ہم خود کیوں نہیں پکڑ سکتے۔ ہم اعتراف کرنا چاہیے کہ ہمارے یہاں پیسے سے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے خواہ اس کے نتیجے میں ملک و قوم کا جتنا بھی نقصان چاہے کیوں نہ ہو۔ جو افغان شہری سبز پاسپورٹ لیکر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اگر وہ ایسی کوئی حرکت کردیتے ہیں جیسی یہاں مختصر وقفے کے بعد وہ دہشت گردی یا خودکش حملے کی صورت میں کرتے رہتے ہیں تو ہم بطور ریاست کیوں اقوام عالم کے زیرعتاب نہیں آئیں گے؟ درحقیقت ہم روپے پیسے کے لالچ میں اِس حد تک پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی آسان نہیں۔ اب غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی وطن واپسی کے لئے عملی اقدامات کا آغاز کیا جاچکا ہے مگر افسوس کہ پولیس اور اِس کے مدد گار ادارے اِس کام میں بھی بھاری رقوم بٹور کر اپنے فرائض سے غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں، جو غیر ملکی ہتھے چڑھتے ہیں انہیں کسی اور علاقے میں روپوش ہونے کے صلاح و مشورے دیئے جارہے ہیں تاکہ وہ بہرصورت پاکستانی باشندے بن کر رہیں اور وہ اِن کی مٹھی گرم کرتے رہیں۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر بخوبی جانتے ہیں کہ غیرقانونی مقیم افراد ریاست کے لئے کیسے اور کتنا خطرہ ہیں لہٰذا ہماری درخواست ہے کہ اِس معاملے میں سختی کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ کوئی بھی غیر قانونی مقیم غیر ملکی یہاں پاکستانی شناخت کے ساتھ مزید یہاں قیام نہ کرسکے۔ اور جو لوگ اِس ضمن میں غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں انہیں کڑی سزا دی جائے۔