آج کے کالمحافظ محمد قاسم مغیرہ

افراتفری نہیں منصوبہ بندی

قاسم مغیرہ

ہر صبح طلوع آفتاب کے ساتھ ہی پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز کا کوئی آفیسر اپنے دفتر سے بہت دور واقع کسی سرکاری سکول کا دورہ کرتا ہے اور ناقص انتظامات پر اظہارِ برہمی کرتا ہے۔ انہیں ایسا کرنے کا قانونی و انتظامی حق تو ضرور حاصل ہے لیکن اخلاقی حق ہرگز حاصل نہیں کہ یہ افسر شاہی ہی تو سرکاری اداروں کی تباہی کی ذمہ دار ہے۔ جس ادارے کی تباہی کے آپ خود ذمہ دار ہیں، وہاں کا دورہ کرکے ناقص انتظامات پر برہمی کا اظہار کس لئے کرتے ہیں؟ فرض کریں کسی بابو نے کسی سرکاری سکول کا دورہ کیا تو کیا ناقص انتظامات پر اظہار برہمی کے بعد اس مسئلے کے حل کے لئے اتنی دل چسپی لی جتنی دل چسپی کسی ڈویژنل سکول کے معاملات میں لیتے ہیں؟ اگر کسی سرکاری ادارے میں کسی سہولت کی کمی ہو تو کیا بابو صاحب اس سہولت کی فراہمی کو اولین ترجیح بناتے ہیں؟ کیا کبھی ایسا بھی ہوا کہ کسی بابو نے کسی سرکاری سکول کے دورے کے بعد کوئی ہنگامی اجلاس بلا کر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا ہو؟ یہ عجیب معاملہ ہے کہ بابو صاحب ڈویژنل سکول کا دورہ کرتے ہیں تو تعمیر کے لئے، کسی منصوبے کے سنگ بنیاد کے لئے اور کسی مکمل ہونے والے منصوبے کے افتتاح کے لئے، اور سرکاری سکول کا دورہ کرتے ہیں تو دھونس دھمکی اور طاقت کے اظہار کے لئے۔ بابو صاحبان کو چاہیے کہ سرکاری سکول کے دورے کرکے وقت اور توانائیاں صرف کرنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام سرکاری سکولوں میں پانی، بجلی، سائنس لیب، کمپیوٹر لیب،لائبریری اور کھیل کی سہولیات موجود ہوں۔
وطن عزیز کے فیصلہ سازوں کو ہر مسئلے کا ایک ہی حل سوجھتا ہے کہ طویل مدتی منصوبہ بندی کے بجائے، افراتفری اور ہنگامی صورت حال کے نفاذ کا ماحول بنایا جائے اور چند دن شور شرابے کے بعد لمبی خاموشی سادھ لی جائے۔
ہر برس تعلیمی سال کے آغاز پر سرکاری سکولز میں داخلہ مہم چلائی جاتی ہے اور طلباء کی ایک مخصوص تعداد کے داخلے کا ہدف رکھا جاتا ہے۔ اس طرح کی ہنگامی صورت حال کے نفاذ سے سرکاری سکولوں کا معیار بہتر نہیں ہوگا، نہ ہی محض تشہیری مہم سے لوگ سرکاری سکولوں کا رخ کریں گے۔ داخلہ مہم سے پہلے بہترین نتائج کے لئے طویل مدتی منصوبہ بندی کی جائے۔ اساتذہ کی تربیت کا معیار بہتر بنایا جائے۔ سکول کے انتظام و انصرام اور نظم و ضبط سے متعلق رئیس ہائے مدرسہ کی خصوصی تربیت کی جائے۔ خالی آسامیوں پر فوراً بھرتیوں کا اعلان کیا جائے۔ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے اساتذہ کو مستقل کیا جائے۔ بہتر نتائج دینے والے اساتذہ کی خصوصی حوصلہ افزائی کی جائے۔ تدریسی اوقات میں کسی بھی قسم کی سرگرمی مثلاً ڈینگی ایکٹیویٹی، کارکردگی ایپ اور زکوٰۃ ایڈمنسٹریشن جیسے غیر تعمیری کاموں میں اساتذہ کی توانائیوں کا ضیاع نہ کیا جائے۔ سکولوں کے معیار کی بہتری کے لئے خاطر خواہ اقدامات کرنے کے بعد کسی داخلہ مہم کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ لوگ خود بہ خود سرکاری سکولوں کا رخ کریں گے۔
موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی ماحولیاتی تحفظ کے نام پر افراتفری برپا کردینے کا چلن بھی عام ہے۔ سموگ سمیت کسی بھی ماحولیاتی مسئلے کے حل کے لئے ضروری ہے کہ ہنگامی صورت حال کے نفاذ کے بجائے سال بھر کے لئے ایک مضبوط، مؤثر اور مربوط لائحہ عمل بنایا جائے۔ ماحول کے بگاڑ کا سبب بننے والے عوامل پر قابو پایا جائے۔ ہر برس موسم سرما کے آغاز پر اینٹوں کے بھٹے بند کرنے یاتعلیمی اداروں میں تعطیلات کرنے سے سموگ کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ایسے اقدامات مزید بحرانوں کا باعث بنتے ہیں مثلاً اینٹوں کے بھٹے بند کرنے سے تعمیراتی کام متاثر ہوتا ہے۔ بار بار تعطیلات سے تعلیمی عمل میں رکاوٹ پیش آتی ہے۔
اسی طرح کی ہنگامی صورت حال ٹریفک کے مسائل حل کرنے کے لئے نافذ کی جاتی ہے۔ کبھی اچانک ہیلمٹ نہ پہننے پر جرمانہ، کبھی بغیر لائسنس کے موٹر سائیکل چلانے پر پابندی ( موٹر سائیکل اس لئے لکھا کہ زیادہ تر چالان موٹر سائیکل سواروں کے ہوتے ہیں)۔ اس صورت حال کا ایک مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ ٹریفک وارڈنز کی اکثریت ٹریفک قوانین، ہیلمٹ، اشارے اور سمت سمیت کسی چیز کی پابندی نہیں کرتی۔ ٹریفک قوانین کے نفاذ پر ہسٹیریائی انداز اختیار کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ٹریفک وارڈنز کو قوانین کا پابند کیا جائے۔ لائسنس، نمبر پلیٹ کے حصول اور گاڑیوں کی رجسٹریشن کا عمل آسان بنایا جائے۔ اس سلسلے میں رائج رشوت کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ چالان صرف ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر کیا جائے نہ کہ صرف روزانہ کا ہدف پورا کرنے کے لئے۔ ٹریفک وارڈنز کی تعیناتی کا اصل مقصد ریونیو اکٹھا کرنا نہیں بل کہ ٹریفک کے بہاؤ کو آسان بنانا ہے۔
چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے چائلڈ پروٹیکشن بیورو حرکت میں آیا رہتا ہے۔ پکڑ دھکڑ ، چھاپوں، جرمانوں، سزاؤں وغیرہ کی خبریں سنائی دیتی رہتی ہیں لیکن اتنی ہنگامہ خیزی کے بعد بھی چائلڈ لیبر میں کمی نہیں آئی۔ اس کا سبب غلط ترجیحات اور ناقص حکمت عملی ہے۔ چائلڈ لیبر کا خاتمہ مقصود ہے تو چائلڈ لیبر کا سبب بننے والے عوامل کا خاتمہ کیجیے۔چائلڈ لیبر غربت، ناانصافی اور سماجی ناہمواری کی پیداوار ہے۔ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے اندھا دھند چھاپے مار کارروائیوں کے بجائے غربت کے خاتمے کا ایک طویل مدتی منصوبہ بنایا جائے۔
جب کسی مسئلے کو سالہا سال تک نظر انداز کردینے کے بعد ہنگامی صورت حال نافذ کرکے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدگیوں کو جنم دیتا ہے۔ اس لئے محض افراتفری مچا کر ریاست بری الزمہ نہیں ہوسکتی۔

جواب دیں

Back to top button