بے چارہ خاوند شاعر

مراد علی شاہد
بمطابق عنوان مجھے خاوند اور شاعر کے ساتھ بے چارہ بطور سابقہ نہیں لگانا چاہئے تھا کیونکہ مذکور دونوں ہی مفہومہunderstood ہیں کہ خاوندبے چارے ہی ہوتے ہیں۔خاوند کی چالاکی اور شاعر کی بے باکی کا شادی کے بعد پتہ چلتا ہے کہ خاوند کتنا چالاک اور شاعر کس قدر بے باک ہے اور اگر میاں بیوی شاعر ہوں تو سونے پہ سہاگہ۔شاعر جس کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ اپنے الفاظ سے دلوں میں آگ لگا سکتا ہے شادی کے بعد اسے یہ بات سمجھ آئی کہ آگ صرف لفظوں سے ہی لگائی جا سکتی ہے بشرطیکہ زبان بیوی کی ہو۔بیوی شاعرہ ہو تو خاوند کی نہ زبان چلتی ہے نہ شاعری۔بلکہ اس کی گھر میں چلتی ہی نہیں۔وہ جو شادی سے قبل اپنے آپ کو شکتی مان سمجھتے ہیں شاعرہ بیوی لانے کے بعد انہیں سمجھ آتی ہے کہ ان کی بیوی کتنی شکتیوں کی مالکہ ہے۔اگر یہی خاتون انڈیا میں ہو تو شاعرہ عوام الناس کی ہی نہیں بلکہ خاوند کے لئے بھی ’’شکتی ماں‘‘ہی ہو۔
عام خاتون دونوں کانوں سے سن کر منہ سے نکال دیتی ہے مگر شاعرہ بیوی دونوں کانوں سے سن کر شاعری اور زبان سے ایسی ایسی نکالتی ہے کہ خاوند کے کانوں سے دھواں نکال دیتی ہے۔بعض اوقات تو کانوں سے ہی نہیں بلکہ۔۔گل اندام خاتون شاعرہ جب مشاعرہ میں غزل سرا ہونے سے قبل کہتی ہے نا کہ عرض کیا ہے تو من چلے سامعین نہ جانے کیا کیا فرض کر لیتے ہیں۔’’ارشاد کیا ہے‘‘ابھی زبان سے نکلتا نہیں کہ ہال میں موجود کتنے ارشاد، ارشاد،ارشاد کرتے دادوتحسین فرما رہے ہوتے ہیں جبکہ یہی سامعین مرد شاعر کے ارشاد کرنے پر باقاعدہ طعنہ تشنیہہ فرماتے ہیں کہ اور تم کر بھی کیا سکتے ہو؟بے چارے گھرمیں ہوں کہ مشاعرہ میں بس ’’عرض‘‘کیا ہے کی مشق ہی فرماتے رہتے ہیں۔ ایسے خاوند کتنی بھی شاعری فرما لیں اتنے کہنہ مشق شاعر نہیں بن پاتے جتنا کہ گھر ہستی میں مشاق۔
خاتون شاعرہ اگر مرقع حسن ہو تو سامعین میں واہ واہ کم اور آہ آہ کی وہ مقابلہ بازی کی فضا پیدا ہوتی کہ عام سامع سمجھ ہی نہیں پاتا کہ یہ واہ اور آہ کس کے لئے ہے،شاعری کے لئے یا شاعرہ کے حسن کے نام،لیکن شاعرہ خوب سمجھتی ہے کہ اس کی شاعری اس قابل نہیں کہ واہ واہ کیا جا سکے۔
جیسے دو تلواریں ایک میان میں نہیں سما سکتیں ویسے ہی میاں،بیوی دونوں شاعر ہوں تو ایک ساتھ مشاعرہ نہیں پڑھ سکتے۔اگر ممکن ہو تو بیوی ہی پڑھے گی،میاں نہیں پڑھ سکے گا،اس لئے نہیں کہ اس کی کہنہ مشقی یا غزل گوئی میں کوئی سقم ہے بلکہ اس لئے کہ بیوی کو سنانے کی عادت ہوتی ہے سننے کی نہیں خواہ وہ غزل ہو کہ۔۔
خاوند اپنی کے ہوتے ہوئے کسی اور کو کہہ نہیں سکتا کہ سنئے جی،کیونکہ و ہ جانتا ہے کہ ایک بار سنئے کے عوض اسے ساری عمر سننا پڑیں گی۔مجھے یاد ہے ایک مشاعرہ میں بیوی نے خاوند کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ’’’سنئے جی‘‘۔خاوند نے ماتھے کا پسینہ صاف کرتے ہوئے عرض کیا کہ’’بس ایک دو ہی سنائیے گاباقی گھر جا کر سنا لیجئے گا۔‘‘خاوند شاعر نے غزل چاہے کسی گل اندام کے لئے لکھی ہو،مشاعرہ میں اعتراف جرم کرنا ہی پڑتا ہے کہ بطور خاص چند اشعار اپنی’’محبوب بیگم‘‘کے لئے عرض ہیں حالانکہ بیگم جانتی ہے کہ یہ عرض کس’’خاص‘‘کے لئے ہیں۔ ایک بار ایک شاعر نے اپنی شاعری میں محض رعایت لفظی کے چکر میں مہ جبیں استعمال کرلیا،مشاعرہ میں کہیں بیگم بھی تشریف فرما تھیں،معصوم شاعر کی جبین پہ آج تک بل پڑے ہوئے ہیں،قدرتی نہیں بیگم صاحبہ کی عطا ہے۔محفل مشاعرہ میں شاعر کے کان ترستے ہیں کہ ہال میں موجود کوئی مہ جبیں کہہ دے کہ ’’پھر سے عطا ہو‘‘اور گھر میں بے چارہ مزید چائے کے کپ کے لئے’’عرض‘‘بھی نہیں کر سکتا کہ بیگم’’پھر سے عطا ہو۔‘‘
واقعی شاعر بھلے کتنا ہی قادرالکلام ہو اپنی بیگم کے سامنے’’کلام ناقص‘‘ہی ہوتا ہے۔میاں بیوی دونوں شاعر ہوں تو گھر کے سکون کے لئے خاوند کو چاہئے کہ گھر میں ہو تو بیوی کے سامنے جوتے اتارے،بغل میں دبائے اور باہر کی راہ لے،اور اگر مشاعرہ میں ہو تو بیاض اٹھائے اور گھر کی راہ لے۔ ویسے شاعر کتنا بھی قادرالکلام ہو بیگم کے سامنے ’’تراہ‘‘نکل ہی جاتا ہے بشرطیکہ بیگم کسی اور کی نہ ہو۔ ایسے شعرا کی مکمل زندگی بیوی کو یقین دلانے میں گزر جاتی ہے کہ تمہارا ایک ایک شعر مجھے اپنے بچوں کی طرح عزیزہے۔
بیگم،تو پھربچوں کو صبح و شام مارتے کیوں ہو؟
خاوند ڈرتے ہوئے آپ کبھی بے وزن بھی تو ہوتے ہیں۔ویسے غالب نے کچھ غلط بھی نہیں کہا تھا کہ گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے۔
رہنے دو ساغر ومینا میرے آگے
شاعر بھائی بھی بھلے عمر رواں کی سینچری مکمل کرنے کو ہو،بے وزن غزل ہو کہ خاتون کبھی پسند نہیں فرماتے۔ ہاں گلِ رو،اپنی لالی پہ ہو تو بے وزن غزل کے ساتھ بھی قابل قبول ہے۔
بیگم؛گویا تم کہنا چاہتے ہو کہ میں،میرے بچے اور میرے اشعار سب بے وزن ہیں۔
نہیں حضور میں نے توصرف آپ کے وزن کی بات کی تھی۔
بیگم،جیسے مجھے اپنے وزن کی کچھ خبر نہیں۔
کہتے ہیں کہ کچھ سامعین شاعروں کو داد وتحسین سے نوازتے ہیں اور بعض اشعار کے لئے واہ واہ،لیکن مشاعرہ میں اگر کوئی شاعرہ سخنوری فرما رہی ہوتو بھول جائیں کہ سامعین شعروں کے لئے‘‘واہ‘‘ کر رہے ہیں۔ایک مشاعرہ میں بیوی غزل سرا ہو ئی تو میاں کے منہ سے کہیں نکل گیا کہ
’’پھر سے سنائیے گا‘‘
بیگم نے قہر آلود نگاہوں سے دیکھا اور’’عرض‘‘کیا
’’تم گھر چلو میں تمہیں۔۔۔‘‘ویسے کچھ شاعر بھی تو حد کرتے ہیں گل اندام بیوی کے ہوتے ہوئے بھی گلبدن شاعرہ کو دیکھتے ہی ایسے بے قابو ہو جاتے ہیں جیسے بچے کی شلوار سے لاسٹک ٹوٹ جانے پر شلوار بے قابو ہو جاتی ہے۔میرے حلقہ احباب میں میاں بیوی شاعر ہیں جن سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے ایک دوسرے کو سنا ہی رہے ہوتے ہیں،وہ الگ بات ہے کہ جو سنا رہے ہوتے ہیں وہ شاعری نہیں کچھ۔۔۔