حق مہر کے متعلق حکم

مولانا محمد اکرم اعوانؒ
مہر ایک عطیہ ربانی ہے جو عورت کو نئے گھر میں مالک بنا دیتا ہے اور یہ واجب ہے اگر نکا ح کرتے وقت اس کی مقدار معین نہ کی تو جب خلوت صحیحہ ہوگی مہر مثل یعنی جس قدر خاندان میں پہلے رواج ہے واجب ہے، ہوجائے گا چونکہ واجب ہے اس لئے ادائے حکم تو کم سے کم عدد میں بھی ہوجائے کا مگر مستحسن یہ ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق دیا جائے اور یہ عورت کی ذاتی ملکیت بن جاتا ہے وہ کسی کو دے یا اپنے پاس رکھے۔ اسے کاروبار میں لگا دے اسے اختیار ہے قبل اسلام عورتوں کے ساتھ مال پر محدود مدت کے لئے معاملہ کرلینے کا رواج تھا جسے متعہ نام دیا گیا اس میں فریقین کی رضامندی سے مال اور وقت مقرر ہوتا تھا عرب عموماًتجارتی سفر کیاکرتے تھے تو جہاں قیام کرتے وہاں یہ وقتی اور عارضی شادی کر لیتے اسلام نے اسے قطعی حرام قرار دے دیا جیسا کہ شراب کی حرمت بعد میں نازل ہوئی مگریہ ثابت نہیں کہ اسلام میں کبھی اسے اچھا بھی سمجھا گیا حلال تو دور کی بات ہے ہاں ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں حرمت کے احکام نازل ہوئے ایسے ہی متعہ کے احکام بھی ہجرت کے بعد نازل ہوئے مگر یہ کبھی بھی اسلامی نکاح کے معنوں میں نہ تھا ہاں اسلام نے نکاح کے ساتھ یہ واجب قرار دیا کہ جن لوگوں سے تم نکاح کرتے ہو اور ان کے مہر مقرر کرتے ہو وہ مہر خاتون کی ملکیت ہے۔
حق مہر کی صورت میں اسلام نے نکاح میں آنے والی خاتون کو ایک خوب صورت انداز سے ملکیت عطا کی ہے۔اس حکم کو تھوڑی سی وضاحت سے دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ بچی جس گھر میں پیدا ہوتی ہے اور جب تک اس گھر میں رہتی ہے اس کی کچھ ملکیت ہوتی ہے۔گھرانہ خوشحال ہوتو اپنا الگ کمرہ ہوتا ہے زمیندار ہوتو زمین ہوتی ہے پھر جب بچی جوان ہوتی ہے تو اس کا نکاح ہوجاتا ہے وہ اپنا نیا گھر بنانے کے لئے دوسرے خاندان چلی جاتی ہے تو وہ عورت جو کسی مرد کے ساتھ نکاح کے بعد اس کے گھر آتی ہے تو وہ عورت وہاں بطور مہمان تو نہیں جاتی اسے وہاں عمر بسر کرنی ہے تو اسلام نے اسے یہ خوب صورت انداز دیا کہ شوہر اسے مہر دے جو اس کی ملکیت ہو اور وہ وہاںمالک بن کر جائے مہمان بن کرنہ جائے۔ مہر بھی شوہر کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے اور اگر کم بھی دے تو کم از کم اتنا جتنا مردکا ایک ماہ کا خرچ ہے لیکن ہمارے ہاں بہت غلط رواج ہے سمجھا جاتا ہے کہ شرعی مہر بتیس دینار تھا اس کو بتیس روپے آٹھ آنے بنا کر رواج دے دیا گیا جو بالکل غلط ہے اگر وقت کی کرنسی کی قیمت دینار یا ریال کا مقابلہ آج کی کرنسی سے ہوتو وہ بتیس ریال بہت زیادہ رقم ہوگی اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اسلام کے ہر حکم کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔ اس حکم کے ساتھ بھی ایک مقصد تو یہ ہے کہ جو بچی گھر میں آرہی ہے وہ مہمان تو نہیں ہے اس نے نئے گھر میں عمر بسر کرنی ہے اس لئے اس کی بھی گھر میں ملکیت ہو فرمایا مہر خوش دلی سے دو اسے جرمانہ سمجھ کر نہ دو اور نہ رسماً دو کہ بس نکاح کی ایک شرط پوری کرنا ہے لہٰذا چاہئے کہ مرد اپنی یا اپنے خاندان کی حیثیت کے مطابق بطور مہر کے مال عورت کو دے جو عورت کی ذاتی ملکیت ہوگا یعنی وہ مرد کی صرف باندی نہیں ہوگی بلکہ صاحب ِ ملکیت اور خاندان کا ایک معزز فرد ہوگی۔
سو ارشاد ہواکہ عورتوں کے مہر ان کو خوشی خوشی ادا کرو یہ نہ ہوکہ اس کے والدین لے کر کھا ئیںیا خاوند ہضم کر جائے یا اس کو مجبور کرکے معاف کرا لیا جائے کہ یہ تمام صورتیں جائز نہیں ہیں۔بعض عرب قبائل میں اور دوسرے لوگوں میں بھی رشتہ دینے پر جو رقم وصول کی جاتی ہے غالباًعہدجاہلیت کی نشانی ہے کہ قبل اسلام عورت بکتی تھی مگر اسلام نے نکاح میں عورت کو مال دلوا کر اسے ایک خاص مقام عطا فرمایا نہ یہ کہ والدین اسے بیج کھائیں یا پھر شوہر کچھ بھی نہ دے اگرچہ تھوڑے سے مال کو مہر مقرر کیا جا سکتا ہے مگر یہ صرف ادائے واجب کے طور پر ورنہ سیدنا فاروق ِ اعظم رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھا سے نکا ح فرمایا تو مہر چالیس ہزار دینا مقرر ہوا تھا(اوجز المسالک)سو شرفاء میں جو رواج ہے کہ پرواہ نہیں کرتے اور بیس پچیس روپے مہر مقرر کرا دیا جاتا ہے جائزتو ضرورمگرمستحسن نہیں بلکہ اچھا یہ ہے کہ معقول رقم جو خاندانی حیثیت کے مطابق ہو اور بوجھ نہ بنے عورت کو ادا کی جائے خوشی اور خلوص کے ساتھ کہ وہ بھی افراد ِ خاندان میں برابر کی حیثیت سے شامل ہو سکے ہاں اگر برضا و رغبت مہر کی رقم کا کچھ حصہ خاوند کو معاف کردے یا لے کر واپس کردے شوق سے کھائو یعنی یہ بھی باہمی الفت کے بڑھانے کا اور ایک دوسرے پر اعتماد کا ذریعہ ہے مگر افسوس کہ آج کل یہ اہم کام تغافل کا شکار ہ اور محض خانہ پُری کی جاتی ہے اور بس یا پھر جس طرح والدین کی جائیداد سے بہنوں کو حصہ نہیں دیا جاتابڑا کوئی نیک بنے تو زبانی کلامی معاف کرا لیتا ہے اور وہ بیچاری یہ جان کر کہ ملنے سے رہا خواہ مخواہ ناراضگی مول نہ لی جائے معاف کر دیتی ہیں ہرگز جائز نہیں آخر جب وہ والد کی اولاد ہیں تو ان کو شرعی حق جو جائیداد میں حصہ کی صورت میں ہے کیوں نہیں دیا جاتا یہی حال عورتوں کے مہر کے معاملے میں ہے جو ہرگز مستحسن نہیں ہے۔