آج کے کالم

امید ابھی باقی ہے!

شرافت علی عامر

سیاستدان معاشرے کا نباض ہوتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ کوئی اچھا سیاست دان اپنے معاشرے کا احوال اور طبعی میلان نہ جان سکے جس کا وہ خود بھی حصہ ہو، بصورت دیگر وہ سیاست دان ہی نہیں کیوں کہ وہ اپنی عوام، اپنی سوسائٹی کی احتیاج، ضروریات اور انداز فکر کو سمجھنے سے ہی قاصر ہے اور یہی اس کی اہلیت کی نفی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کی تشخیص کر کے ایک بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنا گرویدا کیا۔جنرل ضیاء کے دور کے بعد نواز شریف اور بے نظیر بھٹوکا دور شروع ہوا جنہوں نے دہائیوں تک ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر حکومتیں کیں جبکہ علاقائی اور لسانی و مذہبی بنیاد پر سیاست کرنے والی جماعتوں نے اپنے اپنے انتخاب کے حوالے سے محض ان کیلئے ہمنوائی اور معاون کا کردار ادا کر کے ان کی سیاست میں بنے رہنے کی راہیں ہموار کیں اور ان سے اپنا حصہ بقدر جثہ یا فائدہ بمطابق ذائقہ وصول پاتے رہے۔ نواز شریف اور بے نظیربھٹو کے ادوار حکومت کے ساتھ ہی ایک اور طرز سیاست نے جنم لیا جو کھوکھلے مگر دلکش نعروں، جھوٹے وعدوں اور لفظی تشفیوں پر مبنی تھی۔ اس دور کے بعد سیاسی قائدین ماہر معالج اور نباض ہونے کے ناطے عوامی ضروریات کو جان کر ان کے حل کیلئے راہیں نکالنے کی بجائے انہوں نے عوام کو مسائل میں الجھا کر وعدوں دلیلوں اور مباحثوں کی سیاست سے متعارف کرایا جو عوام کے مسائل کے حل کی بجائے انہیں پولیٹیکل سٹیرائیڈ لگانے کے مترادف تھا۔ ان سٹیرائیڈ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمیں ہر جگہ تقسیم نظرآنے لگی اور ہر کوئی اپنے محبوب قائد کو حقیقی رہنما ثابت کرنے کیلئے گلا پھاڑ پھاڑ کر دلائل دینے کے ساتھ ساتھ ایڑی چوٹی بلکہ دونوں پھیپڑوں کازور لگا کر مباحثہ جیتنے کی تگ ودو میں نظرآنے لگا۔ یہ مباحثے ہر ٹی سٹال، ڈرائنگ روم، دفتر، حمام یا کسی بھی عوام جگہ پر فروغ پانے لگے جو بلواسطہ طور پر انہی سٹیرائیڈ دینے والے سیاسی ڈاکٹروں کے ملکی وسائل پر بے رحمی سے قابض ہونے اور اس کوعوام کو غنودگی کی حالت میں رکھنے میں بہر طور کامیاب ہوئے اور تا حال کامیاب ہیں۔
بے نظیربھٹو کی دنیا سے بے وقت رخصتی کے بعد سیاست میں آصف علی زرداری کی اینٹری ہوئی جنہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ہی بطور صدر مملکت کیا اور آناً فاناً ان کی سیاسی چالوں نے سیاسی منظر ناموں کو بہت سے تغیرات سے متعارف کرایا مگر جب بھی معاشرے اور عوام کی نبض دیکھنے کے بات آئی تو پتہ چلا کہ وہ بھی پولیٹیکل سٹیرائیڈز ہی تجویز کرنے والے سیاسی معالج ہیں جس کا نتیجہ یہی ہوا کہ عوام نے ان کے دور کو شاید دور بلا خیز کے طور پرگزارا۔ ہمارا ہر آنے والا سیاسی دور اس سے پہلے دور سے اس قدر ابتر ہوتا ہے کہ پچھلا دور بہتر محسوس ہوتا اور سیاسی سٹیرائیڈز کی عادی عوام پچھلے دور کو اچھا اور اس لیڈر کو بہت اچھا شمار کرتے ہوئے وکالت بلا دلالت شروع کر دیتی ہے۔ ان سیاسی رہنمائوں کے وکیل بلا دلیل ساتھ ساتھ روتے بھی ہیں اور ساتھ ساتھ نعرے بھی لگا تے جاتے ہیں۔بلکہ اب تو ان دونوں سیاسی خانوادوں کی اولادیں ستاروں پہ کمند ڈالنے کو تیار ہو چکی ہیں اور بلاشبہ وہ ستارے جن پر یہ کمندیں ڈالیں گے وہ کوئی اجرام فلکی نہیں بلکہ ہمارے ہی قسمت کے ستارے ہوں گے جن پہ یہ کمندیں ڈالیں گی۔ رہی سہی کسر چلتے پھرتے برانڈ یعنی عمران خان نے نکال دی جس نے نباض بننے کی بجائے ایسے ا ٓدم بیزار معالج کا روپ دھارا کہ عوام اور ان کے درمیان بہت بڑی خلیج نظر آئی۔ عوامی مسائل ان کو نظر ہی نہیں آئے جبکہ ان کے اپنے نسوانی مسائل کبھی ختم ہی نہ ہونے پائے۔ دوہزار سترہ میں اقامے پر ختم ہونے والی حکومت کے بعد پی ٹی آئی بر سر اقتدار آئی تو ساڑھے تین سال تک یہی نہیں سمجھ پائی کہ آخر اس قوم کے مسائل کیا ہیں اور ان کا علاج کیا ہے۔ ساڑھے تین سال بعد اس وقت کی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سولہ ماہ کیلئے بے بس قوم کی وارڈ میں بطور معالج آئے جنہوں نے اس وارڈ میں اقتصادی نظام تنفس کی بحالی کے قریباً تمام آلات ہی مفقود کر دئیے۔ بہر حال یہ قوم جب تک پولیٹیکل سٹیرائیڈ زکے زیر اثر رہے گی ایسے ہی معالج نما سیاستدان ان کا مقدر بنتے رہیں گے۔ فضائی آلودگی سے دوچار ملک میں سانحہ نو مئی سیاسی آلودگی بھی پھیلانے کا باعث بنا جس کی وجہ سے ابھی تک ملکی سیاسی فضا میں پولیٹیکل کاربن کے ذرات مل رہے ہیں۔ ایسے میں پی ٹی آئی سے راہیں جدا کرتے ہوئے عبدالعلیم خان اور جہانگیر خان ترین نے استحکام پاکستان پارٹی کے نام پر ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ پی ٹی آئی کا گڑھ سمجھے جانے والے صوبے خیبر پختون خوا میں بھی سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے پی ٹی آئی پارلیمینٹیرین بنا لی ہے۔ پرویز خٹک تو تا حال کسی قسم کا کوئی سیاسی کھڑاک نہ کر پائے ہیں لیکن استحکام پاکستان پارٹی اپنے قدم قدرے مضبوطی سے جمانے میں کامیاب ہو چکی اور ملکی سطح پر سیاسی مباحثوں میں ایک حوالہ بن کر زیر بحث اور اپنا منشور بھی پیش کر چکی ہے اور انتخابی نشان حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو چکی ہے۔ علیم خان اور جہانگیر ترین خان دونوں ہی عوام میں اپنا اچھا تعارف رکھتے ہیں اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے چلانا اور لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرنا ان کی شخصیت کے معتبر حوالے بلکہ پہچان ہیں۔ بالخصوص پنجاب میں عبدالعلیم خان کی زیر سر پرستی علیم خان فاونڈیشن کے بے شمار منصوبے خلق خدا کیلئے سہولت اور آسودگی کا باعث بن رہے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ پاکستانی بل گیٹس بطور پارٹی سربراہ، بطور سیاسی قائد اور عوامی نمائندہ ہونے کے ناطے اس قوم کا حقیقی نبض شناس اور نباض ہو گا یا نہیں۔ کیا قوم ایک بار پھر پولیٹیکل سٹیرائیڈز تشخیص کرنے والے معالج سے متعارف ہو گی یا اپنی ماضی کے حوالوں کی طرح عبدالعلیم خان حقیقی قائد کے طور پر اس قوم کی تکالیف پریشانیاں اور مسائل کی تشخیص کر کے ترقی خوشحالی اور بہتری کا نسخہ تجویز کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ مایوسی گناہ ہے تو پھر امید کا دامن تو ہاتھ سے چھوڑ نہیں سکتے لیکن یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ اسی امید بہار کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کی نظریں استحکام پاکستان پارٹی اور اس کی قیادت پر جمی ہوئی ہیں دعا ہے کہ اس بار ان کا بھروسہ ٹوٹنے نہ پائے اور ان کی ان پولیٹیکل سٹیرائڈز سے جان چھوٹ جائے۔

جواب دیں

Back to top button