یواے ای کی سرمایہ کاری اور پاکستان سٹاک مارکیٹ

ڈاکٹر رحمت عزیز خان
جہاں پاکستانی عوام کمر توڑ مہنگائی، پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمت، ٹرانسپورٹ کے ناقابل براداشت کرایوں، اشیائے خورو نوش اور سبزیوں کے مہنگے ریٹس کی وجہ سے پریشان ہیں وہاں آجکل کچھ اچھی خبریں بھی گردش کررہی ہیں ان اچھی خبروں میں پاکستان سٹاک ایکسچینج میں تیزی کی خبر بھی شامل ہے۔پاکستان سٹاک ایکسچینج میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے مختلف شعبوں میں نمایاں سرمایہ کاری کے باعث خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جو کہ ایک تاریخی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں ایک قابل ذکر اضافہ بدھ کو ہوا اور پاکستان سٹاک ایکسچینج کا 100 انڈیکس بلندی کی حد کو چھونے لگا، جس نے 61ہزارپوائنٹ کی بے مثال حد کو توڑ کر اوپر چلا گیا۔ اس یادگار چھلانگ کی وجہ سے اس سال 20ہزار830پوائنٹس کا حیران کن اضافہ دیکھنے میں آیا اور حصص کی قیمتوں میں غیر معمولی طور پر 63 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اب یہ مجموعی سرمایہ 87 کھرب 46 ارب 11 کروڑ 45 لاکھ روپے تک پہنچ گیا ہے۔ماہرین معاشیات نے اس تیز رفتار تیزی کے مضمرات کو محض عددی کامیابیوں سے آگے بڑھنے کی امید قرار دیا ہے اور اس صورتحال کو سرمایہ کاروں کے اعتماد کی نشاندہی قرار دیا ہے، ماہرین نے اکثر امید افزا امکانات کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں چند مثبت پشین گوئیاں بھی کی ہیں۔ تجزیہ کاروں نے مزید 30 فیصد اضافے کی پیش گوئی بھی کی ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔ اور دسمبرکے آخری ہفتے تک انڈیکس کے 75 ہزار پوائنٹس تک پہنچنے کی توقع ہے۔پاکستان کے ساتھ تعاون کرنیوالے ممالک میں مختلف عطیہ دہندگان کی جانب سے اربوں ڈالر کی مالی اعانت اور آئی ایم ایف پروگرام کے تحت دوسری قسط کی توقع شامل ہیں۔ مزید برآں ماہرین معاشیات کی طرف سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مارکیٹ شرح سود میں ممکنہ کمی اور سیاسی منظر نامے میں بہتری کی خبروں پر مثبت ردعمل ظاہر کرتی ہے۔روایتی طور پر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بینکنگ، سیمنٹ، توانائی، اور کھاد جیسے شعبے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔ تاہم طویل ترین مندی کے بعد مارکیٹ میں تیزی کا رجحان ابھر رہا ہے جو کہ پاکستان کیلئے نیک شگون ہے۔سٹاک مارکیٹ کی اس تیزی کے تناظر میں ماہرین کا کہنا ہے کہ بیانیے کو محض سرمائے کے جمع ہونے سے اسٹریٹجک استعمال کی طرف منتقل کیا جائے۔ حکومتیں ان فنڈز کو پائیدار اقتصادی ترقی کی طرف منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ زراعت اور صنعتوں کے قیام جیسے اہم شعبوں میں سرمائے کا استعمال ملک کے معاشی استحکام اور ترقی کو نمایاں طور پر تقویت دے سکتا ہے۔زراعت کی ترقی کے لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا کہ زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کے طور پر جدیدیت اور ترقی کیلئے موزوں شعبہ رہا ہے۔ جدید کاشتکاری کی تکنیکوں، آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے، اور فصلوں کے تنوع میں سرمایہ کاری سے طویل مدتی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ مزید برآں صنعتی توسیع کی حوصلہ افزائی کیلئے سٹاک مارکیٹ کے فوائد کو استعمال کرنے سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور ملک کی صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔
اگرچہ سٹاک مارکیٹ میں حالیہ اضافہ سرمایہ کاروں کے اعتماد اور صلاحیت کی عکاسی کرتا ہے، لیکن اس کی ٹھوس نمو میں تبدیلی کا دارومدار منصفانہ پالیسی سازی اور اسٹریٹجک سرمایہ کاری پر منحصر ہے۔نگران حکومت کیلئے مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ یہ فوائد صرف قلیل مدتی فوائد کے طور پر ضائع نہ ہوں۔ ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جو ذمہ دارانہ سرمایہ کاری کیلئے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوں، صنعتی کاروبار کی توسیع کیلئے ترغیب دیتی ہوں اور ساتھ ساتھ پائیدار اقتصادی ترقی کو ترجیح دیتی ہوں۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں حالیہ اضافہ معاشی ترقی کیلئے نمایاں صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے لیکن اس کیلئے بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ نگران حکومت کو پائیدار اقتصادی ترقی کیلئے اس مالیاتی اضافے سے فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ پاکستانی قوم مستقبل کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سٹاک مارکیٹ کو صرف مالی فوائد کے پلیٹ فارم کے طور پر نہیں بلکہ طویل مدتی معاشی استحکام اور ترقی کو فروغ دینے کے ایک بڑے ادارے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔
rachitrali@gmail.com