غزہ ایک بار پھر لہو ،لہو

جنگ بندی میں توسیع کے لئے عالمی مطالبات کے باوجود اسرائیل نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوبارہ فلسطینیوں پر آگ و بارود کی بارش شروع کردی ہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق جنگ بندی کے بعد اسرائیل نے پہلے ہی حملے میں خواتین و بچوں سمیت 178 فلسطینیوں کو شہیدکردیا ہے۔ صیہونی طیاروں کی بمباری اور توپخانے سے گولہ باری کے نتیجے میں دوسو سے زائد مقامات پر شہادتیں ہوئیں مگر دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف مظاہروں اور جنگ بندی میں توسیع کی تمام کوششوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا ہے جو انتہائی تشویش ناک ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے جنگ کو نتیجہ خیز ہونے تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔قطر اور مصر کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی بحال کرنے کی کوششیں کررہے ہیں ، امریکی قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا ہے کہ ہم اسرائیل، قطر اور مصر کے ساتھ مل کر غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی کوشش کر رہے ہیں ، دوسری جانب حماس کے رہنما اسامہ حمدان نے جنگ بندی معاہدے میں توسیع نہ ہونے کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے کہاہے کہ اسرائیل کا اصرار تھا کہ اسرائیلی شہریوں کی بجائے فوجی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔اور امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے واضح طور پر کہا ہے کہ اسرائیل کے لئے اپنی حمایت جاری رکھیں گے، یعنی امریکہ بہرکیف فلسطینیوں کی نسل کشی اور اسرائیل کے ارض فلسطین پر ناجائز قبضے کی حمایت جاری رکھے گا۔ دیکھا جائے تو امریکی مدد کے بغیر اسرائیل نہ تو نہتے فلسطینیوں کا مقابلہ کرسکتاہے اور نہ ہی اطراف کی مسلمان ریاستوں کا زیادہ دیر تک سامناکرسکتا ہے، لہٰذا اسرائیل اسی لئے انسانیت سوز جنگی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے کیونکہ اِسے امریکی حمایت حاصل ہے مگر دوسری طرف امریکہ کی اِس حکمت عملی نے پوری دنیا کے سامنے امریکی ریاست کا وقار بری طرح مجروح کردیا ہے جو پہلے ہی مسلمان ریاستوں پر یکے بعد دیگرے حملے آور ہونے اور اسلامو فوبیا کو پروان چڑھانے کی وجہ سے اب زمین بوس ہوچکا ہے، رہی سہی کسر اسرائیل کا اعلانیہ ساتھ دے کر پوری کردی گئی ہے۔ بہرکیف اسرائیل نے ایک بار پھر فلسطینیوں کی نسل کشی کا آغازکردیا ہے،اسرائیل کے وجود کو ناپاک تصور کرنے والے ممالک بھی مصلحتاً اِس معاملے پر خاموش ہیں کیونکہ امریکہ نے اسرائیل اور فلسطین کے معاملے میں کود کر اقوام عالم پر واضح کردیا ہے کہ وہ جارح اسرائیل کے ساتھ ہے لہٰذا جو بھی اسرائیل کے خلاف آواز بلند کرے گا یا مظلوم فلسطینیوں کی مدد کے لئے آگے بڑھے گا اُس کا سامنا اسرائیل سے پہلے امریکہ سے ہوگا۔ اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب کا معاملہ تو دور کی بات ہے، اقوام متحدہ بطور ادارہ جنگ بندی کرانے میں ناکام رہا ہے، مسلمان ملکوں نے اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں جو کچھ وہ کرسکتے تھے، وہ کیا ہے، کیونکہ اِس سے زیادہ کرنا شاید اِن کے لئے ممکن نہیں رہا، چونکہ اسرائیل نے دوبارہ جنگ شروع کردی ہے، لہٰذا مسلمان ممالک ایک بار پھر مذمت کریں گے، اِس سے زیادہ اور کچھ بھی تو نہیں کرسکتے۔ اِس جنگ کا نتیجہ بھی افغانستان ، عراق اور ایسی دوسری جنگوں سے مختلف ہونے کی توقع نہیں ہے کیونکہ اِن تمام جنگوں کا خاتمہ اُسی وقت ہوا تھا جب بڑی طاقتوں نے اِن مسلمان ریاستوں کے خلاف اپنے مذموم مقاصد حاصل کرلئے تھے، جن میں جانی و مالی نقصان بلکہ نسل کشی سرفہرست تھی لہٰذا اسرائیلی بربریت کے معاملےمیں بھی ایسا ہی لگ رہا ہے کہ معصوم بچوں اور خواتین کو خصوصی طور پر اسی لئے نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقصد پورا ہوسکے۔ افسوس کہ ہم عراق، افغانستان اور دوسری ریاستوں پرحملے کےوقت بھی مذمت سے زیادہ کچھ نہیںکرسکے، اب بھی ہم مذمت کاہتھیار استعمال کررہے ہیں کیونکہ اِس سے زیادہ کچھ کرنے کی ہماری شاید سکت ہی نہیں ہے۔ اِس جنگ میں بھی مظلوم فلسطینی تن تنہا مگر جسد واحد کی طرح شہادتیں پیش کررہے ہیں اور وہ اسرائیل سے ذرا برابر بھی خوف زدہ نہیں ہیں۔ دوبارہ جنگ شروع ہونا بلاشبہ انتہائی افسوس ناک ہے مگر اس کو رکوانے کے لئے کوششیں بہرحال جاری رہنی چاہئیں۔