آج کے کالمڈاکٹر محمد صغیر خان

حصارِ شہر جاں کا مکین

ڈاکٹر محمد صغیر خان

کہتے ہیں کہ ایک چٹورہ شخص بھرے پرے سویٹ ہائوس میں داخل ہوا۔ اس نے دیکھا کہ یہاں تو بھانت بھانت کی مٹھائیاں بڑے سلیقے سے سجی ہیں۔ یہاں لڈو، وہاں گلاب جامن، ادھر برفی ادھر جلیبی، اس طرف کچھ،اُس طرف کچھ۔ یہ سب دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اس نے دکاندار سے بارعب لہجے میں کہا ’’یوں کریں کہ مٹھائی مکس کرکے مجھے دے دیں‘‘۔ دکاندار نے لجاجت سے پوچھا ’’بتائیے صاحب کون کونسی مٹھائی مکس کروں‘‘؟ اب اس شخص نے ہر مٹھائی کیلئے کہا ’’یہ بھی مکس کرو، وہ بھی اور وہ بھی‘‘۔ جب ساری مٹھائیاں مکس ہو چکیں تو اس نے دکاندار سے کہا ’’اب یہ تول کر مجھے دے دو‘‘۔ دکاندار نے خوشی سے پوچھا ’’صاحب کتنی مٹھائی تولوں‘‘؟ اب اس شخص نے جیب سے چند سکے نکالے اور اسی رعب داب سے کہا ’’یہ لو… بس اتنی کافی ہو گی‘‘۔ پھر کیا تھا کہ دکاندار ہکابکا اسے اور کبھی مکس شدہ مٹھائی کو دیکھ رہا تھا۔
کچھ ایسا ہی ’’معاملہ‘‘ میرے ساتھ ہوا۔ سرفراز سید ایک جانے پہچانے صحافی تو ہیں ہی ایک ’’منے پرمنے‘‘ شاعر بھی ہیں۔ ان کے شعری انتخاب کی اشاعت کی دھوم تھی۔ میں بھی منتظر تھا کہ ’’چن چڑھے تہ جگ دیکھے‘‘۔ بالآخر وہ دن آن پہنچا جب یہ شعری انتخاب مجھ تک پہنچا۔ اسے دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور حیرانی بھی۔ خوشی اس لئے کہ محترم سرفرازسیدؔ کی شعری تخلیق طبع تو ہوئی اور حیرانی اس لئے کہ سب جانتے ہیں کہ اس قابل ذکر سخنور نے مدتوں سے نوع بہ نوع تخلیقی شیرینی یہاں وہاں چھپا لکا رکھی ہے۔ اب جب اس کا ’’اظہار‘‘ ہوا تو اتنا مختصر کہ گویا ’’پوٹھے وچاپوٹی‘‘ والی کیفیت ہو گئی۔ سرفراز سیدؔ پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں اور صحافی بھی ایسے جو معاشرے کی رگوں میں دوڑتے جراثیم زد لہو کیلئے ’’صافی‘‘ جیسے ہیں کہ وہ اپنے طور پورا ’’ہمدرد‘‘ ہیں۔ وہ مختلف اخبارات اور جرائد سے ہوتے، اپنے اندر خوبیاں و ’’اوصاف‘‘ جمع کرتے جب ’اوصاف لاہور‘ تک پہنچے تو پکے لہوری کی طرح راوی کو نہ بھول پائے۔ اسی لئے شاید ’’راوی نامہ‘‘ یوں لکھنا شروع کیا کہ ہرسو اس کے تذکرے تبصرے ہونے لگے۔ لوگ بھاگ اسے پڑھتے، سمجھتے و سراہتے بلکہ دھراتے رہے ہیں۔ یوں اُنہوں نے اپنے لئے اعتماد و اعتبار کمایا اور توقیر و اعزاز سے سرفراز ہوئے۔
’’صحافت‘‘ کے ساتھ ساتھ وہ شعر و ادب سے بھی اپنے ازلی تعلق کو نبھاتے رہے۔ سرفراز مخصوص اعزاز، کردار اور انداز کی تکون کا نام ہے جس نے اپنے دھیمے پن کو ہمیشہ برقرار رکھتے ہوئے سخت سے سخت بات بہت رسیلے اور نرم لہجے میں یوں کہی کہ جل ترنگ سے بج اٹھے۔ حالات بتاتے ہیں کہ شاعری سرفراز کی پہلی محبت اور صحافت دوسرا انتخاب ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ اُنہوں نے پہلا شعر چھٹی جماعت میں لکھا۔ یہی وہ موقع تھا جب ان کے استاد محترم مولانا عبدالحق نے انہیں کہا کہ ’’شعر کہتے رہو، اس سے زندگی میں ترتیب پیدا ہوتی ہے‘‘۔ ازاں بعد اسی ترتیب، تربیت اور طبیعت کے باہم ملاپ سے وہ کوئی سات دہائیوں سے زیادہ مدت سے مسلسل شعر کہہ رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’میری شاعری 76 برس پہلے شروع ہوئی‘‘۔ اُنہوں نے سکول کے زمانے سے جس سفر کا آغاز کیا وہ پورے سکون سے ان کے ساتھ چلتا رہا… اور اب یہ سکوت ’’حصارِشہر جان‘‘ کی صورت سامنے آیا۔
یہ کہنے کو سرفراز سید کی شاعری کا انتخاب ہے لیکن جانے کیوں مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ محض اکتساب و انتساب ہے یا پھر کوئی کڑا احتساب۔ ’’حصار شہر جان‘‘ نے گماں کی حد سے پرے یہ طور بیاں اپنے لئے کیوں چنا؟ میں تو نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور مانتا ہوں کہ سرفراز سید نے بھرپور شعری سرمائے میں سے آنکھ میں لگے سرمے کی سلائی جتنا یہ مواد، جو سواد میں رسیلا و البیلا ہے کو ایک ثواب سمجھ کر مختصر کتاب کی صورت دی ہے ورنہ ان کے پاس دکھانے بتانے کو بہت کچھ ہوا ہو گا۔ بہرحال بندہ حصارِ شہر جاں میں اترے تو اس کا مکیں حمد کہتے یوں سنائی دیتا ہے۔
تیری حمد کیسے کروں بیاں
کوئی لفظ ہے نا زبان ہے
تو خلیق ہے تو کریم ہے
تو خالق دو جہاں ہے
تیرے کرم کی نہیں انتہاء
تو عظیم، عظیم الشان ہے
پھر وہ مسجد نبوی کے در پر کھڑا پکار رہا ہے کہ
میں نبیؐ جی آپ کے در پہ ہوں
ایک نظر کرم خیر البشر
تو ساتھ ہی کہتا ہے کہ
ایک مصلیٰ، ایک پیالہ، چند کھجوریں، ایک چٹائی
الفقر و فخری کل سرمایہ، زہرقدم بھی کل خدائی
اپنی جگہ فقر و فکر کا حامل سرفراز دست بستہ گزارش کناں ہے کہ
مجھے شرف دے، مجھے حرف دے، تیرے نام اپنی دُعا لکھوں
تجھے منبع جود و سخا کہوں، تجھے شافع روز جزا لکھوں
اب وہ کربلا کے مسافر کے حضور ’’سلام‘‘ یوں پیش کرتا ہے
تاریخ کے اوراق میں عجیب سی اک داستاں
دریا کنارے پیاس کا اک قافلہ رواں دواں
یا پھر اس کا کہنا ہے کہ
حسینیت سر عیاں، لا الہ الا اللہ
حسینیت حق کی اذاں لا الہ الا اللہ
اسی طرح وہ ’’کربلا والوں کے حضور‘‘ یوں عرض گزار ہے کہ
وہ جو خون گرتا تھا ریت پر
وہ جو آگ برسی تھی فرش پر
وہ جو خیمے چلتے تھے جا بجا
وہ جو شور برپا تھا عرش پر
وہی زندگی کابیان تھا
وہی زندگی کا جواز تھا
جب وہ نظم کہنے پر آتا ہے تو فکر و فن کا وہ اظہار ترتیب پاتا ہے کہ قاری ششدر رہ جاتا ہے۔ ’’میں‘‘ سرفراز سید کی نمائندہ نظم ہے، وہ لکھتا ہے
میرے پاس آ میری بات سن، مجھے پڑھ میں تیری کتاب ہوں
مجھے حرف بحرف یاد کر، مجھے لکھ، میں تیرا نصاب ہوں
میں وہ شمع ہوں جو جلے اگر، تو قدم پہ اپنے ہی گر پڑے
کسی کوزہ گر کو نصیب ہوں، کسی چشم نم کا حباب ہوں
’’رزق‘‘ ایک اور معنی آفرین نظم ہے
چلو پھر ایسا کرتے ہیں، ذرا تفہیم کرتے ہیں
بنام عدل آدم، رزق ہم تقسیم کرتے ہیں
مجھے کچھ حرف دے دو، لفظ دے دو اک قلم دے دو
زمانے بھر کا غم دے دو، مجھے اک چشم نم دے دو
اب ’’چادر‘‘، ’’دل کا کاٹھ کباڑ‘‘ اور ’’نیلام گھر‘‘ سے ہوتی ہوئی بات ’’اے وادی کشمیر‘‘ تک پہنچتی ہے۔
اک بستی میں آیا ہوں سر وحشت و آزار
خاموش ہیں گلیاں، سبھی کوچہ و بازار
انسان پرندے، کوئی نغمہ، نہ چہکار
سنسان سمن زار، شب گریہ کی تفسیر
اے وادی کشمیر
اے خالق ارض و سماء، وقت دُعا ہے
خلقت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
دھرتی پہ تیری جبر و ستم حد سے بڑھا ہے
کب بدلے گی آقا تیرے کشمیر کی تقدیر؟
اے وادی کشمیر
’’اونچے پربت کالے بادل‘‘ کے بعد ’’ثلاثی‘‘ کی باری ہے
اشکوں کی زبانی تھی
ہم بچھڑے بہاروں میں
اتنی سی کہانی تھی
چار مختصر مگر خوبصورت نظموں کے بعد ’’اقبال کے حضور‘‘ شاعر کہتا ہے
وہ مرد کوہ و دشت تھا، صحرا نورد تھا
سوز و گزار کا امین، تفسیر درد تھا
اب ’’نیا سال‘‘ سے انسان ’’16 دسمبر 2014‘‘ سے ہوتا ’’ایک شہر‘‘ تک آتا ہے
آنکھ میں آنے سے پہلے ہی سارے منظر بیت گئے
جن کو ہم نے مورکھ جانا وہ تو ہم سے جیت گئے
پھر ’’پہیلی‘‘ سناتے، ’’ایک افسردہ چہرہ دیکھ کر‘‘ وہ دن دکھاتے معاملہ ’’عید‘‘ تک آتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب سرفراز سید کہتا ہے کہ
جب زمیں کا ذرہ ذرہ میں نے دل بنا لیا
تیری جستجو تھی آساں، میں نے تجھ کو پا لیا
یہاں ہی شاعر گنگناتا ہے
سمندروں کے درمیاں سراب دیکھتے رہے
وہ جاگنے کا وقت تھا ہم خواب دیکھتے رہے
ثواب سوچتے رہے، عذاب دیکھتے رہے
سب امتحاں گزر گئے، نصاب دیکھتے رہے
ان ’’عذابوں‘‘ سے دو دو ہاتھ کرتے ہوئے سفر و مسافر غزل تک آتا ہے
کب عہد وفا ہو گا اے جان وفا جاناں
کب برسے گی شانوں پہ زلفوں کی گھٹا جاناں
یا پھر وہ لکھتا ہے کہ
اونچے اوداس جنگلوں میں شام کی طرح
اترا دیارِ دل میں وہ الہام کی طرح
تو ایک قدم آگے غزل یوں سامنے آتی ہے
تمہاری آنکھیں بھی خوبصورت میرے بھی جذبے رواں دواں تھے
مگر وہ موسم عجیب موسم کہ سب کے چہرے دھواں دھواں تھے
توساتھ ہی
وہ جن کے چہرے دھواں دھواں تھے وہ لوگ شہر مثال کے تھے
وہ زرد موسم کے رازداں تھے وہ رخ پہ باد ملال کے تھے
ان کی ’’غزل‘‘ کا ایک خوبصورت یوں بھی ہے
نیند جوانی، حسن قیامت خوشبو کا ہنگام
جتنے بھی رنگ یاد ہیں مجھ کو سارے تیرے نام
بالآخر انجام کو پہنچی یہ بھی لوک کہانی
پیار کی باتیں، سپنے، وعدے ہو گئے سب نیلام
اب غزل اُردو کا جامہ اتار ’’پنجابی‘‘ کا پیرہن پہن لیتی ہے
اپنی بیتی آپے دسدے، تیرا ہسدا مکھ تے میں
وقت کہڑے آن کھلوتے، ایس دھرتی دی ککھ تے میں
یا پھر ’’غزل‘‘ کا انداز ایسا ہے
شہرچ ڈھول دھمکا سی
قاضی گل تے پکا سی
خلقت سورج لبھدی سی
سورج ہکا بکا سی
اب ’’گوتم‘‘ کی باری ہے اور پھر استاد دامن کی وفات پر کیے گئے اشعار
اج وی انج ای چپ بیٹھے او اج وی اوہو ای قصے
کنواں نمبر آیا جے، اج اس اجلاس دے حصے
روپ بہروپ دے تپدے منڈل موت دی ٹھنڈی چھاں
لوگ گو اچے لبھن جائیے کہڑے پنڈگراں
تو یہاں ہی وہ ’’وارث شاہ دے ناں‘‘ لکھتے ہیں
علم دا جگ وچ مندا ہویا چلالے حکم گنواراں دے
مٹھڑے بول سنا فیر وارث، سک گئے پھل گلزاں دے
اس بڑے مگر کڑے انتخاب کو دیگ کے وہ چند چاول کہہ سکتے جن کو چکھ کر پوری دیگ کا ذائقہ معلوم ہو سکتا ہے۔ سرفراز سید ایک خوبصورت شاعر ہیں۔ اُنہوں نے یقینا بہت سارا لکھا، اپنے وقت پر ان کے کہے لکھے کو بے حد سراہا گیا اور ازاں بعد بھی یہ ریت روایت جاری رہے گی۔ سرفراز، جو ’’حصارِشہر جاں کا مکیں‘‘ ہے وہ خوبصورت روائتوں کا آمین ہے۔ وہ ایک نفیس و دلنشیں کردار و اعتبار ہے جسے ہم اس کے لفظوں، شعروں، غزلوں، نظموں میں ہمیشہ زندہ و جاوید پائیں گے۔

جواب دیں

Back to top button