ایڈیٹوریل

خسارے کا شکار اداروںکی حکومتی سرپرستی ختم

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے حکومتی اداروں میں عہدیداروں کی تعیناتی کے طریقہ کار سے متعلق 4 آرڈیننس جاری کر دیئے ہیں ۔ صدر مملکت نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) ترمیمی آرڈیننس 2023، پاکستان پوسٹل سروسزمینجمنٹ بورڈ ترمیمی آرڈیننس 2023، نیشنل شپنگ کارپوریشن ترمیمی آرڈیننس 2023 اور براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ترمیمی آرڈیننس 2023جاری کیا ہے۔ اِن کا مقصد ان اداروں کو حکومتی اثر سے آزاد کرنا ہے اوراعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے آرڈیننس جاری کیے گئے ہیں۔ترامیم کے بعد ان اداروں میں بورڈ کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو الگ الگ ہوں گے، ان اداروں کے بورڈز میں آزاد ممبران کا تقرر کیا جائے گا، بورڈز کو اپنی رپورٹ پبلک کرنے کا پابند کر دیا گیا ہے۔ نیزخراب کارکردگی والے ان مزید چار سرکاری اداروں کا بھی انتظامی ڈھانچہ تبدیل کرنے کا فریم ورک تیار کیا جاچکا ہے اور آئندہ یہ مزید چار سرکاری ادارے بھی خود مختار بورڈ کے زیر سرپرستی کام کریں گے۔ اگرچہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر یہ قدم اٹھایاگیا ہے، تاہم یہ انتہائی دانش مندانہ اقدام ہے مگر تاخیر کے ساتھ اٹھایاگیا ہے کیونکہ پی آئی اے، ریلوے سمیت وہ تمام ادارے جو قومی خزانے پر بوجھ ہیں اِس بوجھ کو اُتارنے کی ضرورت ہے، ہمارا پہلے ہی بال بال غیر ملکی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے، ایسے میں وہ تمام ادارے جو آمدن کی بجائے نقصان دے رہے ہیں اِن کے متعلق فوری فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ سیاسی حکومتیں بھی اِن مسائل اور خرابیوں کی جڑیں لگاتی ہیں، اپنے دور اقتدار میں اپنے کارکنوں کو مختلف سرکاری اداروں میں کھپانا حالانکہ وہاں ضرورت نہ ہو دراصل اُس ادارے پر بوجھ ڈالنا ہے، پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز اور ریلوے ہمارے سامنے کھلی مثالیں ہیں، پی آئی اے جس نے دنیا کی بڑی ایئر لائنز کے عملےکی تربیت کی، آج کرائے کے جہاز لیکر اپنا تشخص برقراررکھے ہوئے ہے کیونکہ ایک ایک جہاز کے لئے اتنا زیادہ عملہ بھرتی کرلیاگیا ہے کہ سن کر دنگ ہوئے بغیر نہ رہاجائے، یہی حال سٹیل ملز کا ہے، ایسا ہی محکمہ ریلوے میں کیاگیا ہے۔ ایک تو غیر ضروری طورپر کارکنوں کی بھرتی اور پھر جب خدا خدا کرکے معاملہ ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے تو غیر ضروری سٹاف کی چھانٹیوں پر احتجاج، سوال یہ ہے کہ ایسے معاملات کیسے چلیںگے، آمدن سے زیادہ اخراجات ہوں تو پھر یہی حال ہوتا ہے۔ بہرکیف صدر مملکت نے جن چار اداروںکے لئے آرڈیننس پر دستخط کئے ہیں توقع کی جاسکتی ہے کہ اِن کے چیئرمین اور بورڈ آف گورنرز اِن اداروںکو نجی اور بین الاقوامی اداروں کے مقابلے میں لانے کی سرتوڑ کوشش کریں گے اور بالآخر یہ ادارےدوبارہ نقصان سے نکل کر نفع کی طرف جائیںگے، مگر ہمیں یہیں نہیں رکنا چاہیے بلکہ تمام ادارے جو قومی خزانے پر بوجھ ہیں اوران کی افادیت بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، اِن کے بارے میں ازخودفیصلہ کریں اور آئی ایم ایف کا انتظار نہ کریں کہ وہ شرط رکھے گا تبھی ہم ٹھیک کام کریں گے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی آئندہ ایسی غلطیوں سے بچنا چاہیے۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان پر بڑھتے ہوئےقرضوںکے بوجھ کے بارے میں اندازہ لگایا ہے کہ 30 جون 2024 کو ختم ہونے والے جاری مالی سال کے اختتام تک یہ 820 کھرب روپے کے قریب پہنچ سکتا ہے۔ اِس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ارباب اختیار خود اور گھاٹے میں چلنے والے ادارے اِس بوجھ میں کتنے اضافے کے ذمہ دار ہیں اور اِن غلط فیصلوںکے نتیجے میں عوام پر مہنگائی اور بے جا ٹیکسوں کی صورت میں کتنا بوجھ آتا ہے۔ ہماری عجیب سوچ اور رحم طلب حالت ہے، ہمارے ارباب اختیار بیرون ملک سے انتہائی زیادہ شرح سود پر قرض ملنے پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں جبکہ عوام کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں کیونکہ چھری بالآخر عوام پر ہی چلنا ہوتی ہے۔ اقوام غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں مگر ہمارے یہاں غلطیوں کا بوجھ دوسرے پرڈال کر پہلےسے بڑی غلطی کی کامیاب کوشش کی جاتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button