صوفی ازم

محمد یوسف بھٹی
صوفی ازم معنویت کے اعتبار سے عملی زندگی میں ایسا فکر و فلسفہ ہے کہ جس کے زریعے انسان اپنے جسم اور روح کی یوں تربیت و بالیدگی کرتا ہے کہ جس سے وہ انسانیت کے اعلیٰ ترین درجہ و مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں انسان کو یہ مقام و مرتبہ تب حاصل ہوتا ہے جب وہ دنیا کو ترک کئے بغیر اپنے اندر سے لالچ، جھوٹ اور دنیاداری وغیرہ کو ختم کر کے مومن کے رتبہ پر فائز ہو جاتا ہے جہاں پر پہنچ کر سورتہ بقراء کی ایک آیت کے مفہوم کے مطابق اللہ اس کے ہاتھ، پائوں، دل اور آنکھیں وغیرہ بن جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں مومن کو ‘احسن تقویم اورخلیفتہ الارض کے القابات سے موسوم کیا گیا ہے جس کی تخلیق اللہ رب العزت نے روئے زمین کی مٹی سے اور اس میں اپنی روح کو پھونک کر کی جس کے بعد وہ اللہ کے عطا کردہ علم الاسماء (چیزوں کے نام و اوصاف کا علم) کی وجہ سے مسجود ملائک ٹھہرا۔
صوفی ازم یا صوفی ایک روحانی اصطلاح ہے جو خدا اور انسان دوست لوگ اپنے بارے میں استعمال کرتے رہے ہیں جس کے زریعے وہ اپنا تزکیہ نفس کرتے ہیں، برائیوں سے پرہیز کرتے ہیں اور حرص و تمع اور مادی مفادات وغیرہ سے اتنے بے غرض ہو کر پاکبازی کی ان بلندیوں پر فائز ہو جاتے ہیں جس کا زکر قرآن پاک میں مومن کی صفات و کردار کے حوالے سے آیا ہے۔ مومن کی یہ شان نفوس قدسیہ کے ذمرے میں آتی ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن، گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان!
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایہء جبریل امیں بندئہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن!
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفان
فطرت کا سرود ازلی اس کے شب و روز
آہنگ میں یکتا صفت سورئہ رحمن
بنتے ہیں مری کارگہ فکر میں انجم
لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان
برصغیر میں یہ اصطلاح فنا فی اللہ، فقراء اور درویشوں کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ تصوف کھر درے کپڑے سے نکلا ہے یا اہل صُفہ سے مشتق ہے یا اس کا کچھ اور بیک گراونڈ ہے (یہ ایک ثانوی مسئلہ ہے) مگر اہل شریعت اس کو زیادہ تر صُفہ ہی سے جوڑتے ہیں۔ صُفہ سے مراد مسجد نبوی ﷺ سے منسلک ایک چبوترہ ہے جسے صُفہ کہتے ہیں۔ اہلِ صفہ وہ چند صحابہ کرام تھے جنہوں نے اپنے آپ کو دنیوی معاملات سے علیحدہ کر کے رسول اللہ ﷺکی بارگاہ کے لئے وقف کر دیا تھا۔ گویا یہ بارگاہ نبویﷺ کے خاص خدمت گزار طالب علم جو نبی پاک ﷺ سے براہ راست فیضان حاصل کرتے تھے۔ یہ لوگ سادہ لباس پہنتے تھے اور غذا بھی سادہ استعمال فرماتے تھے۔ چونکہ صوفیاء کرام کی زندگی میں اصحابِ صفہ کی زندگی کی جھلک موجود ہوتی ہے، اس وجہ سے ان کوصوفی کہا جاتا ہے۔
صوفی کی تعریف، صوفیاء کے نزدیک یہ ہے کہ صوفی وہ ہے جو قلب کی صفائی کے ساتھ صوف پوش (سادہ لباس) ہو اور نفسانی خواہشات کو (زہد کی) سختی دیتا ہو اور شریعت مصطفیٰ ﷺکو لازم پکڑتا ہو اور دنیا کو پسِ پشت (غیر مقصود) ڈال دیتا ہو۔
حضرت شیخ ابو علی رودباری رحمتہ اللہ علیہ کے مطابق صوفی وہ ہے جو ہر وقت اُسی کا ہو کر رہتا ہے جس کا وہ بندہ ہے۔ حضرت عمر بن عثمان مکیؒ کہتے ہیں کہ صوفی پرسکون جسم، دل مطمئن، منور چہرہ، سینہ کشادہ، باطن آباد اور تعلق مع اللہ کی وجہ سے دنیا کی تمام اشیاء سے بے پرواہ ہوتا ہے۔ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا فرمانا ہے کہ صوفی مخلوق سے آزاد اور خدا سے مربوط ہوتا ہے۔صوفی ازم اسلام سے جدا نہیں۔
صوفیاء جیسا کہ مذکورہ بالا حقائق سے بھی ظاہر ہوتا ھے، رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ ہی میں موجود رہے ہیں مگر اس وقت انہیں صوفی کا نام نہیں دیا گیا تھا بلکہ اس زمانے کے تمام مومن و متقین لوگ ایک ہی اصطلاح سے جانے جاتے تھے یعنی صحابہ رسولﷺ،پھر بعد میں آنے والے عظیم مسلمانوں کیلئے تابعین اور اس کے بعد والوں کیلئے تبع تابعین کا لفظ استعمال ہوتا گیا۔ امام قشیری کے مطابق صوفی کا لفظ 822 سے دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کے بقول تبع تابعین کے بعد زاہدین اور مخلص عبادت گذاروں اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والوں کے لئے یہ (متبادل) لفظ صوفی بن گیا۔
لیکن عصر حاضر میں برصغیر کے مسلمانوں میں صوفی ازم خانقاہی نظام تک محدود ہو کر رہ گئی ہے جہاں محفل سماء ہے، لنگر خانے اور بعض صورتوں میں چندے اور نذرانے ہیں حالانکہ صوفی ازم دنیاوی مفادات سے اوپر اٹھا کر آپ کو اخلاقی بلندی کے اس مقام پر لے جانا چاہتی ہے جس میں نفسا نفسی، لالچ، بغض، حسد، غیبت، بہتان، انتقام، دشمنی اور منافرت وغیرہ جیسی روحانی بیماریاں نہ ہوں، جو عدل سے بھی آگے بڑھ کر مقامِ احسان و ایثار تک پہنچاتی ہے یعنی آپ کا جو حق بنتا بھی ہے، صلہ رحمی، انسان نوازی اور جذبہ احسان و مروت و اپنائیت کے تحت بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے کو عطا کر دیں اور خود پیچھے ہٹ جائیں۔ سادگی، عاجزی، انکساری، حلیمی اور درویشی کے اوصافِ حمیدہ اپنے اندر پیدا کرتے ہوئے انسانیت سے بے لوث محبت کی طرف گامزن ہو جائیں یہی وہ نگاہِ فقر ہے جس کے سامنے شانِ سکندری سرنگوں ہو جاتی ہے۔ یہی معرفت عظمتِ انسانی ہے، فرشتے جس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں، یہی سوز و گداز انسانیت کا جوہر ہے۔ یہ وارداتِ قلبی و ذہنی جب براستہ تصوف و درویشی آگے بڑھتی ہے مقام آدمیت تک جا پہنچتی ہے جس کا ذکر قرآن کے فلسفہ مومن میں ملتا ہے (جس کا پہلے ذکر آیا ہے) اور جس کی وضاحت اقبال نے خلاصتاً اس ایک شعر میں کی ہے کہ:
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن!