آج کے کالممحمد عثمان کھوکھر

مصنوعی غیرت مند

محمد عثمان کھوکھر

دنیائے _عالم میں غیرت مند ڈھونڈئیے تو بالعموم بنگلہ دیش انڈیا اور بالخصوص پاکستان کے علاؤہ یہ مخلوق کہیں اور نہ ملے گی۔ خوش قسمتی کہیے یا بدقسمتی کہ اتنی وسیع تعداد ہے ہمارے پاس کہ اب بے غیرت چراغ لے کر بھی ڈھونڈیں تب بھی نہیں ملتے۔!لیکن یہ خوشی کی بات نہیں بلکہ پریشان کن معاملہ ہے۔ خدارا بے غیرت،اصل غیرت مند جسے ناعلمی،کم عقلی کی وجہ سے ہمارے معاشرے نے بے غیرت کا نام دیا ہوا ہے،ڈھونڈئیے تاکہ انسانی جانوں کو تحفظ مل سکے۔نہیں تو یہ آدم خور مصنوعی غیرت مند جیتے جاگتے، سانس لیتے معاشرے کو قبرستان میں بدل دیں گے، ہمارے ہاں ہر قسم کے غیرت مند پائے جاتے ہیں۔ مذہبی غیرت مند، قومی و سیاسی غیرت مند،نسلی و تعصبی غیرت مند، لسانی و علاقائی غیرت مند،قبائلی اور خاندانی غیرت مند۔
غرض ہمارے ہاں انواع و اقسام کے غیرت مند ہیں،جو اپنے کام اور فیلڈ میں پوری ایمانداری سے انسانی جسموں پر غیرت کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں، یوں تو سب ایک دوسرے سے سبقت کی کوشش میں ہیں،مگر جو سبقت خاندانی اور عزت والا غیرت مند لے چکا ہے وہ شاید کسی اور کو نصیب نہ ہو۔اقوام متحدہ کے مطابق ہر سال پانچ ہزار سے زائد خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں جن کا زیادہ تر تعلق انڈیا،بنگلہ دیش اور پاکستان سے ہوتا ہے۔ ایک دو نہیں بیسوں واقعات روزانہ کی بنیاد پر ہو رہے ہیں، اور یہ ظلم رکنے کا نام نہیں لے رہا، پاکستان کے ہر شہر اور صوبوں میں ایسے واقعات کی آئے روز خبریں عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کر لیتی ہیں بی بی سی کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں ایک لڑکے اور لڑکی کی سوشل میڈیا پر تصاویر وائرل ہونے کے بعد لڑکی کو قتل کر دیا گیا جبکہ لڑکے کو پولیس نے اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا۔ ضلع کوہستان خیبر پختونخوا کا انتہائی دور افتادہ اور پسماندہ علاقہ ہے اس سے پہلے سال 2012 میں بھی ضلع کوہستان کے علاقے پالس میں مئی 2010 میں ہونے والی ایک شادی کی تقریب کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں چار لڑکیوں کی تالیوں کی تھاپ پر دو لڑکے روایتی رقص کر رہے تھے۔
یہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ویڈیو میں رقص کرنے والے بن یاسر اور گل نذر کے بھائی افضل کوہستانی نے دعویٰ کیا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکیوں کو ذبح کر کے قتل کر دیا گیا ہے اور اس کے بعد افضل کوہستانی اور اس کے چار بھائیوں کو بھی قتل کیا جا چکا ہے اور اس کے بعد بھی کوہستان سے ایسے کئی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں، جب خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا
حال ہی میں کوہستان کے تھانہ پالس میں ایس ایچ او نور محمد خان کی مدعیت میں درج مقدمے میں کیا گیا ہے کہ قتل کی اطلاع ملنے پر جب وہ جائے وقوعہ پر پہنچے تو وہاں پر مقتولہ کی لاش خون میں لت پت پڑی تھی۔ مقدمے کے مطابق مقتولہ کی کسی لڑکے کے ساتھ تصاویر وائرل ہوئی تھیں، جس کے بعد مقتولہ کے والد اور چچا نے پستول سے فائرنگ کر کے لڑکی کو گھر کے اندر ہی مار دیا۔جب کہ دوسری لڑکی کو پولیس نے اپنی حفاظتی تحویل میں لے کر عدالت کے سامنے پیش کیا جہاں اس نے بیان دیا اسے اپنے والدین سے کوئی خطرہ نہیں عدالت نے تنبیہ کے ساتھ والدین سے 30 لاکھ حفاظتی مچلکے حاصل کیے
ڈر کا یہ عالم ہے کہ لڑکی کے قتل کے بعد ویڈیو میں نظر آنے والانوجوان اپنی جان کے خوف سے خفیہ مقام پر چھپا ہوا تھا لہٰذا اس نے پولیس سے مدد طلب کی اور پولیس اسے حفاظتی تحویل میں لینے کے لئے بھاری نفری کے ساتھ موقع پر پہنچی اور حفاظت کے پیش نظر اس کو پولیس اہلکار کی وردی پہنانا پڑی پولیس کے مطابق لڑکے نے ان کے سامنے دعویٰ کیا ہے کہ یہ تصویر جعلی ہے اور اس کے پیچھے کوئی سازش ہے۔ اب تک کی کارروائی اور تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ویڈیو ایڈٹ کی ہوئی ہے اور میرے سامنے باپ اور چچا کے ہاتھوں ناحق قتل ہونے والی لڑکی کا لاشہ تڑپ رہا ہے سچ ہے کہ
ان گنت محفلیں محروم چراغاں ہیں ابھی
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑ دیا
دراصل جو معاشرے علم سے محروم ہوں،وہاں شیطنت،جہل اور ظلم کا ہی دور دوراں ہوتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں علم ہی نہیں کہ عزت کیا ہے اور غیرت کس شے کا نام ہے۔ حیوانیت اور درندگی کا نام ہم نے غیرت رکھ لیا ہے۔
ساقی کوثر حضرت محمدﷺ نے فرمایا،بتائو تو پہلوان کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا حضور وہی جو میدان میں پچھاڑ دے ۔ محسن انسانیت نے فرمایا نہیں پہلوان وہ ہے جو اپنے غصے پر قابو پا لے ۔ دراصل یہ غیرت کے نام پر درندگی کا ناچ ناچنے والے اصل میں جہل پسند غصیلے ہوتے ہیں،غیرت مند نہیں۔غیرت کوئی اور شے ہے، اسلامی نقطہ نظر سے غیرت کو دیکھا جائے تو اس میں درندگی کہیں نہیں ملتی۔ بلکہ اسلام کا مزاج حیرت انگیز ہے۔ سورۃ نسا میں ہے کہ :اور تمہاری جو عورتیں ‘فاحشہ’کا ارتکاب کریں،ان پر اپنے اندر سے چار گواہ طلب کرو،اگر وہ گواہی دے دیں تو انہیں گھروں میں بند کردو، یہاں تک کہ انہیں موت آلے یا اللہ ان کے لئے کوئی سبیل نکال دے۔
اس آیت مبارکہ پر غور کیجئے ، مرد عورت، مصروف عمل بد میں ہیں،ایسے میں دیکھنے والا بندہ کیا کرے؟ دونوں کو مار دے،لیکن نہیں اسلام کسی اور شے کا متقاضی ے، اور وہ ہے چار گواہ۔وہ چارگواہ اکٹھے کرے اور گواہ بھی مرد۔اور اگر وہ گواہ چار پیش نہ کر سکے تو الٹا قذف کی حد اس پر آ جائے گی۔ گواہ مل جائیں تو انہیں گھروں میں بند کر دو، یہاں تک کے انہیں موت آ لے یا اللہ کوئی اور سبیل پیدا کر دے۔ یاد رہے کہ یہ ابتدائی اصول تھا بعد میں سورہ النور میں مکمل وضاحت فرما دی کہ (ترجمہ )
زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو اور تمہیں نہ روکے ان کے ساتھ مہربانی اللہ کے دین (کی تنفیذ) کے معاملے میں اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور یوم آخرت پر اور چاہیے کہ ان دونوں کی اس سزا کے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے۔
یہاں پر بیان کر دیا کہ چار گواہ مل جائیں تو پھر ان پر حد جاری کرو، ان دونوں کو سو سو کوڑے مارو اور زرا بھی رحم نہ کرو، اور جب سزا دو تو وہ بھی اکیلے میں نہیں بلکہ عبرت کے لئے اہل ایمان کا گروہ بھی موجود ہو۔سنت نبوی میں شادی شدہ جوڑے کو رجم کرنے کا حکم ہے۔غیرت مند وہی ہے جو اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے سنت نبوی پرعمل کرے۔ان واقعات میں جہل پسندی زیادہ ہے، لوگ جہالت کو غیرت سمجھتے ہوئے معاشرے کے امن کو تباہ برباد کر دیتے ہیں۔
غیرت کا تقاضہ یہ نہیں کہ اک غلطی ہوئی ہے اس کی سزا میں آپ ایک کبیرہ جرم کر بیٹھیں، ہوتا یوں ہے دو کچے زہن،شعور سے نابلد،سماج و معاشرہ کی راویات سے ناواقف،فلم،ڈرامہ اور نیم عریاں ادب سے متاثر جوڑے بھاگ جاتے،کورٹ میرج کر لیتے ہیں،پھر شروع ہوتا ہے عزت اور غیرت کا ننگا ناچ۔لڑائی جھگڑے،درندگی،حیوانیت،قتل وغارت، اک غلطی سے پورے معاشرے کا امن تباہ و برباد ہوجاتا ہے،یہ بربادی و تباہی بعض دفعہ تو نسل در نسل وارثت کی طرح منتقل ہوتی ہے اور ناحق انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے جو بیچارے شریک جرم بھی نہیں ہوتے وہی انسانی جان جس کے لئے محسن انسانیت ﷺنے مسلمان کی جان کی حُرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے۔(ابن ماجہ،ج 4،ص319، حدیث:3932)
میں اکثر سوچتا ہوں کل روز محشر جب ان غیرت مندوں کے گریبان پکڑے جائیں گے، اور پوچھا جائے گا بتاؤ ، ہم سے جو غلطی سرزد ہوئی اسکی سزا قتل تھی؟تو یہ غصیلے صفت مصنوعی غیرت مند کیا جواب دیں گے۔؟

جواب دیں

Back to top button