اب بارش برسے گی چھم چھم!!

انور گریوال
اب مصنوعی بارش ہوگی،مگر محکمہ موسمیات اُس بارش کی پیشگی اطلاع دینے سے قاصر ہوگا۔ وجہ اِس محکمانہ مجبوری کی یہ ہے کہ بارش مصنوعی ہے، اصلی ہوتی تو کچھ جھوٹ سچ پیشن گوئی پوری ہو ہی جاتی ہے۔ جب حکومت کے انتظامات مکمل ہوگئے، برسا دی جائے گی، تیاری مکمل ہونے پر محکمہ کو بھی آگاہ کر دیا جائے گا اور محکمہ لوگوں کو خبر دار کر دے گا تاکہ لوگ بارش سے بچانے کیلئے اپنی ضروری چیزیں محفوظ کر لیں۔ خیال پایا جاتا ہے کہ لوگوں کو بارش میں نہانے سے بھی منع کیا جائے گا، اور کسی حد تک بھیگنے سے بھی، کیونکہ ایک تو موسم بارش میں نہانے کا نہیں، دوسرا یہ کہ یہ بارش کیمیکلز وغیرہ کے ذریعے برسائی جائے گی، یہ نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں اور تیسرا یہ کہ یہ بارش فضائی آلودگی یعنی سموگ وغیرہ کو اپنے ساتھ فضا سے نیچے زمین پر لائے گی، یوں بارش تو برس جائے مگر بہتر ہوگا کہ اِس سے دور ہی رہا جائے ۔
میڈیا نے عوام کو اطلاع دی تھی کہ مصنوعی بارش برسانے میں 35کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جس کی سمری وزارتِ خزانہ کو ارسال کر دی گئی ہے اور یہ بھی کہ بارش برسانے کا عمل وزیر اعلیٰ کی اجازت سے مشروط ہوگا، محکمہ موسمیات اور محکمہ ماحولیات نے اس کارِ خیر میں مرکزی کردار ادا کیا ہے، اور یہ بھی کہ بادل پر کلائوڈ سیڈنگ راکٹ فائز کیا جائے گا۔ پنجاب کے وزیراطلاعات کا بیان جاری کیا گیا ہے کہ مصنوعی بارش کی یہ سب سے تیز ٹیکنالوجی ہے، اس سلسلے میں چین کے ماہرین سے بات ہو چکی ہے، وہ جلد ہی پاکستان آئیں گے۔
اس اُمّید افزا خبر کے اگلے ہی روز وزیر اطلاعات کا وضاحتی بیان بھی جاری کر دیا گیا، شاید اسی خیال سے کہ عوام کہیں مصنوعی بارش کیلئے سنجیدہ ہی نہ ہو جائے۔ انہوںنے مصنوعی بارش برسانے کی تردید نہیں کی، بلکہ بتایا کہ 35کروڑ کی خطیر رقم اس عام سے کام کیلئے استعمال نہیں ہوگی، یہ تو ایک معمولی کام ہے، جو بادل پر سالٹ چھڑکنے سے روبہ عمل ہو جائے گا، تاہم اوّل تو اس کیلئے بادلوں کا ہونا از حد ضروری ہے، دوسرا یہ کہ جس جہاز سے کام لیا جائے گا اُسے چالو کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ یہ بھی کہ لاہور کے مخصوص مقامات پر یہ خدمت سرانجام دی جائے گی۔ البتہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ لاہور کے مخصوص علاقے کون سے ہیں؟ کون سی کالونی ہے جہاں طاقتور لوگ رہتے ہیں اور اِس خصوصی بارش سے وہی مستفید ہو سکیں گے؟اُدھر چونکہ بادلوں کا موجود ہونا مصنوعی بارش کی لازمی شرط ہے اور سالٹ چھڑکنے والے جہاز کی بھی تیاری مکمل نہیں ہوئی اس لئے عوام کسی خوش فہمی اور جلد بازی کا شکار نہ ہوں، یہ دونوں کام ہوں گے تو بارش برسائی جا سکے گی۔ اگر قدرتِ حق سے بادل آ جاتے ہیں اور جہاز تیار نہیں تو پھر بھی معذرت ہی ہے۔
اگر دونوں محکموں نے سمری وزارتِ خزانہ کو بھجوا دی ہے (جبکہ وزیر اطلاعات نے اس امر کی تردید کر دی ہے) تو حکومت اپنے محکموں کی بھیجی ہوئی سمری پر غور کرنے سے قبل اس بات پر غورتو ضرور کرے گی کہ اگر حکومت نے 35کروڑ اِس معمولی سے کام پر لگا دیا تو یہ خطیر رقم کہاں سے حاصل کی جائے گی، آیا چین صرف ماہرین ہی دے گا یا وہ ماہرین آتے ہوئے کچھ کرنسی بھی تھیلوں میں ڈال لائیں گے، تاکہ ہمسایوں کے حقوق کی صحیح معنوں میں پاسداری کر سکیں۔ اگر ہماری حکومت اور نوکر شاہی وغیرہ کی مراعات میں سے کٹ لگا کر بارش پر رقم اُڑا دی گئی تو سمجھیں یہ بارش کبھی نہیں برس سکے گی، کیونکہ مقتدر طبقے اور بیوروکریسی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر لوگوں کیلئے بارش برسانے میں معاون بننے سے رہے۔ دوسرا یہ کہ سموگ کی وجہ سے پنجاب کے دس اضلاع متاثر ہو رہے ہیں، سکولوں میں چھٹیاں اور لاک ڈائون کا ماحول بن رہا ہے، تو صرف لاہور کے مخصوص علاقوں میں بارش برسانے کا کیا مطلب ہے؟ کوئی درست تخمینہ سامنے نہیں آرہا، کچھ بارش برسائی جائے تو حالات کا اندازہ ہو سکے کہ کتنی بارش پر کتنا خرچ اٹھتا ہے، لاہور کے مخصوص علاقوں پر کتنا اور دس اضلاع پر کس قدر؟خرچہ پورا کرنے کیلئے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جن علاقوں پر بارش برسائی جائے اُن پر بارش ٹیکس لگا دیا جائے۔ اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ جب بارش سے سموگ کا خاتمہ بالخیر ہو جائے گا تو پھر خالی جگہ کو پُر کرنے کیلئے سموگ دوسرے علاقوں سے سفر کر کے یہاں دوبارہ نہیں آ جائے گی۔
ہمیں تو اس بات کا روزِ اول سے ہی خدشہ ہے کہ جس طرح بھارت گرمیوں کے آخر میں اپنا فالتو پانی پاکستان کے بند دریائوں میں چھوڑ دیتا ہے، اور کئی سالوں سے خشک ہوتے دریا کناروں سے پانی اُبلنے لگتے ہیں، بے شمار فصلیں اور مکانات وغیرہ تباہ ہو جاتے ہیں، سموگ کا بھی کوئی ایسا ہی چکر ہے جو ہو نہ ہو بھارت نے ہی چلایا ہوگا۔ کیونکہ گزشتہ کچھ ہی روز قبل پاکستان کے محکمہ ماحولیات نے بھارت کو خط لکھنے کا عندیہ دیا تھا کہ بھارتی پنجاب کے شہروں لدھیانہ اور جالندھر میں کسان فصلوں کی باقیات کو آگ لگاتے ہیں، جس کی وجہ سے لاہور کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ بھارت کو خط لکھنے کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ تک بھی پاکستان کو اِس عالمی مسئلے میں بھارت کی سازش کو ضرور بے نقاب کرنا چاہیے۔
مصنوعی بارش پر تو بہت سا خرچ بھی اٹھے گا مگر قوم پر تو مختلف چیزوں کی برسات ہوتی رہتی ہے، اپنے ہاں مقتدر طبقوں پر مراعات کی موسلا دھار بارش برستی ہے، جو کبھی تھمنے کا نام نہیں لیتی، ملک دیوالیہ ہونے کو تھا تو بھی اِن کی مراعات میں ایک روپے کی کمی نہیں آئی تھی، اور مراعات یافتہ طبقہ عیاشی کی بارش سے کبھی نہیں اُکتاتا۔ عوام بھی مسلسل بارش کی زد میں ہیں، یہ بارش موسلا دھار بھی ہے اور مسلسل بھی۔ مہنگائی کی بارش، ذِلّت و رسوائی کی بارش، بیماریوں اور پریشانیوں کی بارش ، جیب خالی ہوتے ہوئے بھی ٹیکسوں کی بارش۔ اگر یہ کہا جائے کہ مندرجہ بالا تمام اقسام کی بارشیں غریب قوم پر جوتوں کی طرح برس رہی ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ اہم بات یہ کہ تمام بارشیں مصنوعی نہیں، بلکہ اصلی ہیں، دلچسپ بات یہ کہ ان بارشوں پر خرچہ نہیں ہوتا ، بلکہ یہاں سے خرچہ وصول کیا جاتا ہے۔