سیاست میں پیرانہ سالی کا شور

سیاسی جماعتوں کے آپس کے شور و غوغا میں جہاں ایک دوسرے کے خلاف نادر قسم کے نکتہ ہا ئے دور دراز بیاں کیے جا رہے ہیں ، ان میں سے ایک بزرگ سیاست دانوں کی سیاست سے دوری اختیار کر نے کا مطالبہ بھی جناب بلاول کی جانب سے شد و مد سے سامنے آرہا ہے ، کیا بزرگ سیاست دانوں کو اب سیاست اور ملک کی جان چھو ڑ دی جانی چا ہیے ، ایک طبقہ فکر جناب بلا ول کے اس مطالبے کا دل سے ہم نوا نظر آتا ہے ، اس طبقہ فکر کے مطابق بزرگ سیاست دانوں نے ملک و قوم کی جو خدمت کرنی تھی کر چکے اب نسبتاً تازہ دم اور جوان طبقے کو سیاست میں مواقع ملنے چاہئیں ، ان اہل دانش کی سوچ سے کامل طور پر اختلاف نہیں کیا جاسکتا ، واقعی سیاست صرف چند گھرانوں اور چند سیاست دانوں کی میراث نہیں کہ وہی بس سیاست کے میدان پر قابض رہیں ، اصل قصہ لیکن سیاست دانوں کی پیرانہ سالی نہیں بلکہ سیاست میں درآنے والی مفاد پر ستی اور ملک وقوم کے مفادات سے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کی مسلسل چشم پوشی ہے ، سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کی قیادت کا عوام کے مسائل کے حل سے مسلسل بے نیازی نے عوام کے دلو ں میں سیاسی جماعتوں کی قدر و منزلت اچھی بھلی کم کردی ہے ، عوام کی نبض سے جڑے ہل دانش طبقے اب سیاسی جماعتوں کو عوام کے غمگسار سمجھنے کے بجا ئے ذاتی مفاد کے خوگر سمجھتے ہیں ، دراصل سارے قضیے کی جڑ سیاست دانوں کی پیرانہ سالی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کی سوچ میں پیدا ہو نے والے ’’ پیرانہ سالی ‘‘ ہے ۔
دنیا بھر کے جمہوری معاشروں میں سیاست میں سرگرم عمل سیاسی جماعتیں خود کو جواں رکھتی ہیں ، ان سیاسی جماعتوں کی قیادت عوام کی نباض ہوا کر تی ہے ، وقت کے تقاضوںاور عوامی مطالبات و مسائل کے مطابق یہ سیاسی جماعتیں اپنے نظریات اپنے منشور اور اپنی طرز سیاست بدلتی رہتی ہیں ، یعنی جمہوریت کے علم بردار معاشروں اور ممالک میں سیاسی جماعتیں لکیر کی فقیر طرز کی سیاست نہیں کر تیں بلکہ عوامی خواہشات کے آگے اپنا سر تسلیم خم کر دیتی ہیں ، ہمارے ہاں المیہ کیا ہے ، وطن عزیز کی سیاست میں سرگرم بلکہ گرم سیاسی جماعتیں اسی پرانی بھینس چوری طرز کی سیاست پر نہ صرف یقین محکم رکھتی ہیں بلکہ سیاست کے انہی پرانے وطیروں کے بل پر عوام کو ہم نوالہ و ہم پیالہ بنا نے کی کو شش کر تی ہیں ، مسلم لیگ نون، پی پی پی، تحریک انصاف اور دوسری سیاسی جماعتیں گر چہ سیاست کے ’’ تو تو میں میں ‘‘کی وجہ سے خوب نقصان اٹھا چکیں، لیکن کو ئی بھی سیاسی جماعت اپنی پرانی روش کو عملا ً صدقاً ترک کر نے کیلئے تیار نہیں ،آج اگر صدق دل سے پی پی پی عوام کو درپیش مشکلات اور مصائب کے عین مطابق ایک جاذب نظر انتخابی مہم کے ساتھ عوام کے پاس جا ئے ، دیکھ لیجیے عوام کس طر ح سے پی پی پی پر صد قے واری ہو تے ہیں عین اسی طرز عمل کو مسلم لیگ نون تحریک انصاف جماعت اسلامی اور دوسری سیاسی جماعتیں اختیار کر یں ، کامل یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز کی بیمار اور بے اعتبار سیاست میں یک دم سے ایک خوش گواریت کا احساس تیزی سے پھلنا پھولنا شروع ہو جا ئے گا ، سیاسی جماعتوں نے گر اس انداز دلبرانہ کو صدق دل سے اپنا کر سیاست کو اپنا تکیہ بنا یا ، اس صورت عوام کیلئے فیصلہ کر نا مشکل ہو جا ئے کہ کس سیاسی جماعت کو نظر انداز کر یں اور کس سیاسی جماعت کے پلڑ ے میں اپنی محبت ڈالیں ، لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی غفلت اور عوام کو نظر انداز کر نے کی اپنی روش بد پر غور کر نے کیلئے اب بھی تیار نہیں ، سیاست کے چوٹی کے طرم خاں اب بھی عوام کے اصل اجتماعی مسائل اور مطالبات سے راہ فرار اختیار کر کے عوام کو لا یعنی معاملات اور مو ضوعات میں الجھا کر اقتدار کی منزل پا نے کیلئے تگ و دو میں مشغول ہیں ، گویا اب بھی سیاست کے سر خیلو ں کے دلو ں میں عوام کا درد جا گزیں نہیں ، مسلم لیگ نون پی پی پی اور تحریک انصاف نے جس طرح سے ماضی میں عوام کے ارمانوں کا بے دردی سے خوں کیا ہے ، اب عوام ان سیاسی جماعتوں کو سیاسی لحاظ سے ’’ بے ثمر بزرگ ‘‘ گردانتے ہیں ، اب بھی سیاسی جماعتوں کے پاس نادر موقع ہے کہ ذاتی مفادات کو بالا ئے طاق رکھتے ہو ئے عوام کے بنیادی مسائل کو اپنی سیاست کا محور بنا کرپھر سے عوام کے دلو ں پر اپنا راج قائم کر یں ،مکرر عرض ہے کہ عوام کو سیاست دانوں کی پیرانہ سالی سے کو ئی لگ نہیں عوام کو بس اپنے مسائل کے حل سے ربط ہے ، چاہے کسی سیاسی جماعت کا سربراہ بڑی عمر کا ہو چا ہے وہ طفل مکتب ہو ، ہر وہ سیاسی جماعت عوام کی دلو ں کی دھڑکن بن سکتی ہے جو اقتدار میں آکر عوام کے مسائل سرعت سے حل کر ے ، پیرانہ سالی اور دوسرے عجب طرز کے بیانیہ کے درمیان اصل سچ یہی ہے ۔