آسانیاں بانٹیں

خدیجہ طاہر
میرے نزدیک سادگی بہ ذات خود ایک نعمت اور بیش بہا آسانیوں کا خزانہ ہے ۔ یعنی آپ جو ہیں جیسے ہیں بالکل ویسے ہی دنیا کے سامنے پیش ہوں ۔ زیادہ فہمی اور دانش وری بسا اوقات دلائل کی جنگ میں مبتلا کر کے انسان کو منزل سے ہٹا دیتی ہے اور جب ہم خود کو عقل کل سمجھنے لگیں تو اکثر بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ کیوں کہ مکمل ذات تو صرف وہ ہے جو سب کا خالق ہے ۔سو جب حجت تمام ہو تو آسانی کسی روزن سے خود بہ خود در آتی ہے۔ایک روشن لکیر کی مانند جو اندھیرے میں اجالا کر دے۔
زندگی تقسیم اور حاصل تقسیم کے رواں اصول پر ہی قائم ہے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ جس چیز کی زندگی میں کمی ہو وہ تقسیم کرنا شروع کر دیں کہ کچھ عرصے بعد نامحسوس طریقے سے وہ آپ تک واپس لوٹنے لگے گی۔
مشہور ادیب و ڈرامہ نویس اشفاق احمد مرحوم لکھتے ہیں کہ جو دوسروں کو آسانیاں فراہم کرتا ہے وہ ہی اصل بابا (پیر) ہوتا ہے،آسانیاں بانٹنا در اصل ہے کیا!کسی اداس اور مایوس آدمی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے اس کی لمبی بات پیشانی پر بغیر شکن لائے سننا آسانی ہے ، کسی بیوہ کی بیٹی کے رشتے کی اپنی ضمانت پر تگ و دود کرنا آسانی ہے ، صبح آفس جاتے ہوئے کسی یتیم بچے کو سکول لے جانے کی ذمہ داری لینا آسانی ہے ،اگر آپ کسی گھر کے داماد یا بہنوئی ہیں تو خود کو تمام رشتوں سے افضل نہ سمجھنا بھی آسانی ہے، کسی غصے میں بپھرے آدمی کی غلط بات برداشت کرلینا آسانی ہے ،کسی کی لغزش یا غلط فہمی پر خدائی صفت بروے کار لانا اور پردہ ڈالنا بھی آسانی ہے، چائے والے کو اوئے کہہ کر نہ بلانا بھی آسانی ہے ، گلی کے کونے پے چھابڑی والے سے دام پر بحث نہ کرنا بھی آسانی ہے ، آفس ، دکان یا کام کی جگہ پر چوکیدار یا ملازم سے گرم جوشی سے ملنا اور اس کے بچوں کا حال احوال پوچھ لینا بھی آسانی ہے، ہسپتال میں اپنے مریض کی دیکھ بھال کے ساتھ، برابر والے بستر پے پڑے انجان مریض کے پاس بیٹھ کےدو بول تسلی کے بول دینا بھی آسانی ہے،اشارے پر کھڑے ہو کر کسی ایسے شخص کو ہارن نہ دینا جس کی موٹر بائیک آپ کی گاڑی کے آگے بند ہو جائے، یہ بھی آسانی ہے۔
کوشش کریں کہ آسانی گھر سے ہی شروع کریں باپ کی ڈانٹ ایسے سنیں جیسے پسندیدہ پروگرام سنتے ہیں، ماں کی بات اس کی دوسری آواز دینے سے پہلے سنیں ،بہن کی ضرورت اس کی شکایت سے پہلے پوری کر دیں ،بھائی کے حالات اگر مستحکم نہیں تو شادی شدہ بہن بھی اس کے معاملات میں مدد کر سکتی ہے نہ کہ بھابھی کی زندگی اجیرن کر دی جائے کہ وہ نحوست ساتھ لائی ہے۔ بیگم کی غلطی پر اس کو سب کے سامنے درست نہ کریں ،سالن اچھا نہ لگے تو شکایت نہ کریں ، استری ٹھیک نہ ہو تو خود کر لیں یا الگ سے یہ بات سمجھائیں مگر سب کے سامنے اس کا تماشا نہ بنائیں۔ زندگی آپ کی محتاج نہیں ۔ آپ اس کے محتاج ہیں ۔ منزل کی فکر چھوڑیں ، اپنا اور دوسروں کا راستہ آسان بنائیں منزل خود ہی مل جائے گی۔ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خاصیت ہوتی ہے اور وہ چیز اپنی اُس خاصیت کے ہاتھوں یا تو مجبور ہوتی ہے یا پھر محدود۔
یہ قدرت کا نظام ہے۔ اب پانی اور پتھر کی ہی مثال لیجیے۔ پانی کی خاصیت یہ ہے کہ یہ متحرک رہتا ہے، بہتا ہے اور دوسروں کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے۔ اِس کے برعکس پتھر ایک جگہ پڑا رہتا ہے اور اکثر دوسروں کی راہ میں رکاوٹ بھی بن جاتا ہے۔ دونوں ہی چیزیں ہمارے رب کی تخلیق کا شاہ کار ہیں اور دونوں ہی میں ہمارے لئے اسباق چھپے ہیں۔ پانی کی خاصیت اپنانے سے ہم میں بھی روانی پیدا ہوتی ہے اور ہم تنہا نہیں چلتے بلکہ دوسروں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ اگر کوئی طے کرلے کہ اُسے پتھر کا سا ہو جانا ہے، پتھر کی سی خاصیت اپنے اندر پروان چڑھانی ہے تو پھر سمجھ لیجیے کہ اُس سے کسی کو زیادہ فیض نہیں پہنچ سکے گا۔افراد کی طرح نسلوں، قبائل، معاشروں اور ریاستوں کو بھی قدرت کی طرف سے بے پایاں صلاحیت و سکت عطا کی جاتی ہے۔ یہ
اہتمام اس لئے ہوتا ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا کیا جائے۔ یہ نظام بھی خدا تعالیٰ ہی کا طے کردہ ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کیلئے بھی آسانیاں پیدا کیجیے، اُن کا بھی بھلا کیجیے۔ کسی بھی معاشرے یا ریاست کو بہت کچھ اس لئے عطا کیا جاتا ہے کہ وہ کم تر معاشروں کا خیال رکھے، کم زور ریاستوں کیلئے آسانیاں پیدا کرے۔ کسی بھی معاشرے یا ریاست کو طاقت اِس لئے نہیں ودیعت کی جاتی کہ اُس کی بنیاد پر مزید طاقت حاصل کرے اور پھر اِس کھیل میں ایسی مست ہو جائے کہ اپنی تخلیق کا مقصد ہی فراموش کردے۔ طاقت صرف اس لئے ہے کہ دوسروں کے کام آیا جائے، نہ کہ اُن کا جینا حرام کردیا جائے۔ہر دور میں چند معاشروں اور ریاستوں کو دوسروں سے زیادہ عطا کیا جاتا ہے۔ یہ خدا ہی کی مرضی کا معاملہ ہے کہ کسی کو زیادہ ملے اور کسی کو کم۔ جنہیں زیادہ عطا کیا جاتا ہے اُن کے کاندھوں پر چند ذمہ داریوں کا بوجھ بھی ڈالا جاتا ہے۔ جو اِس بوجھ سے بطریقِ احسن نمٹتے ہیں وہی کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ جو بوجھ کو کسی نہ کسی طور کاندھے سے اتار پھینکنے پر یقین رکھتے ہیں وہ مغضوب ٹھہرتے ہیں۔ کسی بھی ریاست کو زیادہ طاقت کا دیا جانا اصلاً اس لئے ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے کام آئے، ان کی مدد کرے تاکہ وہ اپنا معیارِ زندگی بلند کریں۔ کم زور ریاستوں کو بھی ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانا بڑی ریاستوں کی اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہی بات اُنہیں عظمت عطا کرتی ہے۔