لوٹے ، لفافے اور٠٠٠٠٠٠

شکیل امجد صادق
ایک بستی کے لوگ جھوٹ بولنے اور جھوٹی گواہی دینے کے لئے مشہور تھے۔اس بستی کے ایک مرد و عورت نے خفیہ طور پر نکاح کرلیا۔نکاح یقیناً شریعت کے مطابق تھا۔نکاح خواں قاضی اور گواہوں کی موجودگی میں۔ کچھ عرصے بعد میاں بیوی میں ناچاقی ہوگئی اور شوہر نے بیوی کو گھر سے نکال بھی دیا،اور اسے تمام شرعی حقوق سے بھی محروم کردیا۔خاتون شہر کے قاضی کے پاس مقدمہ لے کر گئی اور بتایا کہ شوہر نے گھر سے نکال دیا ہے۔قاضی نے کہا تمہارے اس نکاح کی توکسی کو خبر ہی نہیں۔خاتون نے کہا کہ جناب ہمارا نکاح بالکل شریعت کے عین مطابق ہوا۔ قاضی نے پوچھاکوئی گواہ ہے؟جی ۔قاضی صاحب دو گواہ بھی تھے،ان ہی کی موجودگی میں یہ نکاح ہوا تھا۔قاضی صاحب نے شوہر اور گواہوں کو طلب کرلیا مگر انہوں نے بھری عدالت میں خاتون کو پہچاننے اور نکاح سے صاف انکار کردیا ۔اور بیک زبان کہا کہ ہم نے تو آج سے پہلے اس خاتون کو کبھی دیکھا تک نہیں۔قاضی صاحب نے خاتون ،شوہر اور گواہوں کو بیک وقت گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے خاتون سے پوچھا کیا تمہارے شوہر کے پاس کتّے ہیں؟ خاتون نے کہا!ہاں، قاضی نے خاتون سے پوچھا کیا آپ کتوں کی گواہی اور ان کے فیصلے کو قبول کرلیں گی؟خاتون نے کہاجی مجھے ان کی گواہی اور فیصلہ قبول ہوگا ۔قاضی نے حکم دیا کہ خاتون کو اس شخص کے گھر لیجایا جائے۔اگر وہ اس خاتون کو دیکھ کر (اجنبی جان کر)بھونکنے لگیںتو یہ عورت جھوٹی ہے اور اگروہ کتے خاتون کو دیکھ کرگھر کا فرد سمجھ کر خوش ہوں اور اس کا استقبال کریں تو خاتون کا دعویٰ درست اور شوہر اور گواہ جھوٹے ہیں ۔اور یہ خاتون گھر کی مالکن ہے۔یہ حکم جاری کرتے ہی قاضی اور عدالت میں موجود لوگوں نے شوہر اور گواہوں کی طرف دیکھنا شروع کردیا،جن کے چہرے جھوٹ پکڑے جانے کے خوف سے پیلے پڑ گئے تھے اور جسم کپکپانے لگے تھے۔ فیصلہ تو ہوچکا تھا کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے قاضی صاحب نے سپاہیوں کو حکم جاری کیا ۔گرفتار کرلو،ان جھوٹوں کو اور انہیں کوڑے لگاؤ۔کہ یہی جھوٹے ہیں۔بدترین بستیاں ہیں وہ،جن کے باشندوں سے زیادہ ان کے کتے سچے ہیں۔تشبیہ اور استعارہ بھی کیا عجیب چیزیں ہیں۔علم بیان و بدیع کی روح سے دیکھا جائے تو ان کے بغیر صنفِ نظم و نثر نامکمل دکھائی دیتی ہیں۔اگر مکمل ہو بھی جائیں تو قاری سپاٹ اور پھیکے پن کا شکار ہو جاتا ہے اور’’ اَک‘‘ کر کتاب سے بیزار ہو جاتا ہے یوں بھی پوری قوم کتاب سے بیزار ہے۔تشبیہ کے لُغوی معانی مانند قرار دینے یا ایک جیسا قرار دینے کے ہیں۔اصطلاحی لحاظ سے جب کوئی لفظ مشترکہ خصوصیات کی بناء سے کسی دوسری چیز کے مانند قرار دیا جائے تو تشبیہ کہلاتا ہے۔مثلاً میرا بیٹا شیر جیسا بہادر ہے(شرط یہ ہے کہ شیر ن لیگ کا نہ ہو) جیسے میر نے کہاکہ
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
یہ تشبیہ کی عمدہ مثالیں ہیں۔ قارئین اب استعارہ کی طرف آتے ہیں۔استعارہ کے لغوی معانی ادھار لینے کے لینے۔(واضح رہے کہ ادھار لینے سے مراد قرضہ لینے کے نہیں جو امیر بینکوں سے لیتے ہیں اور حکومتیں آئی ایم ایف سے لیکر ہڑپ کر جاتی ہیں یا بانٹ کر کھا جاتی ہیں) اصطلاحی اعتبار سے جب کوئی لفظ اپنے حقیقی معنوں کی بجائے مجازی معنوں میں اس طرح استعمال ہو کہ اس میں تھوڑا سا عنصر تشبیہ کا پایا جائے، استعارہ کہلاتا ہے۔جیسے وہ شیر ہے۔اس میں شیر مستعار لیا گیاہے جیسے (حمزہ شہباز،بلاول زرداری، مونس الٰہی،خرم جہانگیر وٹو،روبینہ شاہین وٹو)اسی تیسرا اور اہم رکن تلمیح ہے۔تلمیح کے لغوی معانی اشارہ کرنے کے ہیں۔واضح رہے کہ کسی خاتون یا من پسند چیز کو اشارہ کرنے کے نہیں ہیں۔نظم یا نثر میں کسی خاص، تاریخی واقعہ ،قرآنی آیات یا حدیث کی طرف اشارہ کرنا،جس سے پورا واقعہ ذہن میں آجائے تلمیح کہلاتا ہے۔یوں لیاقت علی خان کا قتل،محترمہ فاطمہ جناح کی شکست اور قتل،ایوب خان کی آمریت،یحییٰ خان کا اقتدار سے چمٹے رہنا،بھٹو کی پھانسی،ضیاء الحق کی آمریت اور حادثہ،پرویز مشرف کا شب خون مارنا، بلاول کا بلاول بھٹو زرداری ہونا،جنرل باجوہ کا ایکسٹینشن لینا بھی تلمیح کے زمرے میں آتا ہے۔ کئی سالوں سے لوٹے اور لفافے کی ٹرم استعمال ہوتی چلی آرہی ہے۔بعض دانشور(اس ملک میں دانشور ہونے کے لئے دانشمند ہونا ضروری نہیں) اس ٹرم کو سمجھنے اور سمجھانے سے قاصر ہیں۔
اب آتے ہیں لوٹے کی طرف۔لوٹا دراصل وہ ٹوٹی نما اور کھلے منہ والا برتن ہے جو ماضی بعید میں مٹی کا بنا ہوتا تھا۔بعض لوٹے صرف استنجا کرنے کام آتے تھے اور بزرگوں کو بہت پیارے ہوتے تھے۔یہ لوٹے جب کبھی ٹوٹ جاتے تھے تو بزرگ بہت افسردہ ہو جاتے تھے۔ اکثر لوٹے وضو کرنے کام آتے تھے بعد میں یہ برتن سلور،پیتل اور سٹیل میں بھی آنے لگے۔ وقت بدل گیا اور جدت آگئی۔اب لوٹا ان سیاستدانوں کے لئے مستعار لیا جاتا ہے جو اپنی پارٹی چھوڑ کر،اقتدار سے چمٹے رہنے کے لئے،عوام کو دھوکہ دینے کے لئے دوسری پارٹی میں جا ’’وڑتے‘‘ ہیں اور اگلے الیکشن میں کسی اور پارٹی سے جا نکلتے ہیں۔اس عمل میں لفظ لوٹا مستعار لے لیا جاتا ہے اور ضمیر مردہ کر دیا جاتا ہے ویسے بھی اس ملک کے باشندوں میں ضمیر نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ یہ غیر مرئی شے اب کہیں دور دراز سے دستیاب ہوگی یا اس کی بازیافت ماضی بعید میں سنائی جاتی ہے۔
اب آتے لفافے کی طرف۔لفافہ ساڑے چار انچ چوڑا اور سات انچ لمبا یک طرفہ کاغذ وہ ٹکڑا ہے جسے تہیں لگا کر گوند سے جوڑ دیا جاتا ہے۔اس کی رنگت سفید،خاکی اور کسی بھی رنگ ہو سکتی ہے۔ان میں ایک لفافہ خاص ہلکے نیلے رنگ کا ہوتا ہے۔جسے ڈاک کا لفافہ کہتے ہیں اور خط و کتابت کے زمرے میں آتا۔ اب یہ لفافہ ماضی کی رنگین اور حسین یادوں کا حصہ بن چکا ہے۔اس لفافے کو تلاش کرنے کے لئے خطوط نگاری کے دور میں جانا پڑے گا۔سفید لفافہ شادی بیاہ اور رسمی تقریبات میں سلامی دینے کے کام آتا ہے۔اس کام کے لئے خاکی اور دیگر لفافہ جات مستعار لئے جاتے ہیں۔
اب آتے ہیں ان لفافوں کی طرف جن کی سمجھ کئی دانشوروں کی قیاس سے باہر ہے۔یہ لفافے اپنا کام نکلوانے،کسی کا کام کروانے کے لئے ہر محکمے،ہر ادارے،ہر آفس کے ’’پردھان منتری‘‘کو دیئے جاتے ہیں۔پاکستان میں یہ لفافے دینے کے ماہر ملک ریاض اور کئی لوگ ہیں اور اسی طرح لینے کے بہت سے احباب ماہر ہیں۔یہ لفافے کام نکلواتے بھی ہیں اور کام دیتے بھی ہیں۔ملک عزیز میں ان لفافوں کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ان لفافوں کے بغیر کسی بھی کام کروانے والے کے یا کام کرنے والے کے منہ لگنا فضول ہے۔اس بات کو کہنے اور سمجھنے میں کوئی عار نہیں کہ ملک علمِ بیان و بدیع کے سہارے ہی چل ہے اور پتہ نہیں کب تک چلتا رہے گا۔