آج کے کالمعبدالرزاق باجوہ

منافقت ایک ناسور

عبدالرزاق باجوہ

ویسے تو ہمارے پاس غور و فکر کے لئے وقت ہی نہیں رہا، بالکل سوچے سمجھے بغیر ہی سب کچھ کیے جارہے ہیں۔ چاہے پریشانی اور مشکلات میں پھنس جائیں، کڑی آزمائش سے دوچار ہوجائیں کبھی ہم نے غور نہیں کیا کہ ہم نے جو کچھ کہہ دیا یا کردیا ہے، یا جو کچھ ہم کہنے اور کرنے جارہے ہیں اس میں کہیں جھوٹ اور منافقت تو شامل نہیں۔ موبائل فون پر بات کرتے ہوئے برملا جھوٹ بولنا فیشن بن گیا ہے بعض اوقات بندہ لاہور سے ہی فون کرتا ہے اور اگلے بندے کو کہا جاتا ہے کہ میں تو سیالکوٹ سے بول رہا ہوں۔ کبھی گھر میں موجود ہونے کے باوجود بچوں سے کہہ دیا جاتا ہے کوئی آئے تو کہ دینا گھر نہیں ہیں۔ یہی عادت بچوں تک منتقل ہورہی ہے جو انتہائی نقصان دہ ہے اور یہ منافقت کی بنیاد بن جاتی ہے پھر بندہ وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا۔ سورہ النساء میں اللہ پاک نے فرمایا:ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کلام کی اور رسول (ﷺ) کی طرف آؤ تو آپ دیکھ لیں گے کہ یہ منافق آپ سے مُنہ پھیر کر رُکے جاتے ہیں‘‘
ایک اور مقام پر اللّٰہ پاک کا فرمان ہے:بیشک منافق اللہ سے چال بازیاں کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اوریاد الٰہی تو یونہی سی برائے نام کرتے ہیں‘‘
صحیح بخاری کی حدیث مبارکہ ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:منافق کی تین نشانیاں ہیں ، جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے ، جب وعدہ کرتا ہے خلاف کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے ۔‘‘
منافقین کی ناپاک چالوں نے ہمیشہ معاشرے کو نقصان پہنچایا ہے۔ جب جھوٹ بولنے والا مرچ مسالہ لگا کر جھوٹ بولتا ہے تو سننے والا اس کی باتوں میں آکر سمجھتا ہے کہ شاید وہ درست کہہ رہا ہے۔ اس چمک دار جھوٹی روش نے منافقت کو فروغ دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنادیا گیا ہے۔ وعدہ کرکے اس کی خلاف ورزی کو معمول سمجھا جارہا ہے۔ امانت میں خیانت کرنا تو گھر کی مرغی تصور کیا جاتا ہے۔
منافقت نے سیاسی، مذہبی، سرکاری اور نجی اداروں کے ساتھ سات معاشرے کے ہر شعبہ زندگی میں اپنی راہیں نکال کر معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اخلاقی اقدار کو پامال کرکے بداخلاقی کی فضا بنا رکھی ہے ۔ منافق کو کبھی اچھا نہیں سمجھا جاسکتا لیکن المیہ ہے کہ جتنا بڑا منافق ہوگا اتنا ہی بڑے عہدہ پر براجمان ہوگا۔
جس ادارے میں منافقت بڑھ جاتی ہے، وہ ادارہ تباہی سے نہیں بچ سکتا، سربراہ سے لےکر چوکیدار تک جو بھی منافقت میں اول درجے پر ہوتا ہے وہی اپنے آپ کو ادارے کا چہیتا سمجھتا ہے۔ جو بندہ مخلص ہوکر چلنے اور دوسروں کو چلانے کی کوشش کرتا ہے اس کے لئے مشکلات پیدا کی جاتی ہیں، اس کے ہر اچھے کام کی راہ میں بھی روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ جھوٹ بولنے، وعدہ خلافی کرنے اور امانت میں خیانت سے گریز نہیں کیا جاتا۔ اکثر ذاتی مفادات کی خاطر اجتماعی مفادات کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں۔
منافقت اگر مذہبی معاملات میں داخل ہوجائے تو ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ منافق لوگ نماز، عبادات بھی ادا کرتے ہیں لیکن جھوٹ سے باز نہیں آتے، وعدہ وفا نہیں کرتے اور امانت کی پاسداری بھی نہیں کرتے جس کے نتیجے میں اسلام مخالف شیطانی قوتوں کو اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کا موقع مل جاتا ہے کہ مسلمان ہوکر بھی لوگ منافقت کرتے ہیں۔ اس طرح اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ ملتا ہے حالانکہ اسلام منافقت کے سخت مخالف ہے۔ قرآن پاک میں ایک مقام پر اللہ پاک نے فرمایا کہ :اس دن منافق مرد و عورت ایمان والوں سے کہیں گے کہ ہمارا انتظار تو کرو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں ۔ جواب دیا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور روشنی تلاش کرو پھر ان کے اور ان کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں دروازہ بھی ہوگا اس کے اندرونی حصہ میں تو رحمت ہوگی اور باہر کی طرف عذاب ہوگا۔
صحیح بخاری کی حدیث مبارکہ ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: دجال آئے گا اور مدینہ کے ایک کنارے قیام کرے گا ، پھر مدینہ تین مرتبہ کانپے گا اور اس کے نتیجے میں ہر کافر اور منافق نکل کر اس کی طرف چلا جائے گا ۔ ملکی تاریخ شاہد ہے پاکستان میں ایسے سیاستدان آتے جاتے رہے ہیں جنہوں نے جھوٹ بول کر عوام کو بے وقوف بنایا، جھوٹے وعدے کیے، ووٹ لئے ، حکومت بنائی اور اپنے ہی کیے وعدوں کی خلاف ورزی کی۔ پھر وہ جو حکومت کی صورت اللہ کی طرف سے ایک امانت ملی، برسر اقتدار آکر قوم کی امانت میں خیانت کی، خزانہ دونوں ہاتھ لوٹا۔ پھر ان کو مالی بدعنوانی پر نکالا گیا۔ ان کی جگہ دوسرے اسی راستے پر چلتے ہوئے آگئے، پھر وہ بھی انہیں الزامات کی زد میں نکالے گئے۔ پھر پہلے والے آگئے پھر وہی راہیں اپناتے اور وہی کارنامے سرانجام دیتے رہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے پیار پاکستان منافقت پر مبنی سیاست کے گول چکر میں پھنسا ہوا ہے جس سے نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آرہی، اس کے نتیجے میں عوام رُل گئے ہیں ۔ تھانہ ہو یا کچہری عوام ہر جگہ بدعنوانی کا نشانہ بنتے رہے ہیں اور اپنے ہاتھوں منتخب کیے سیاستدانوں کی حکمرانی اور شعبدہ بازیوں سے لٹتے چلے آرہے ہیں۔ یہ ہرگز نہیں کہ پاکستان میں سب منافقت پر اکتفا کیے ہوئے ہیں بلکہ اچھے سیاست دان بھی موجود ہیں۔ عدالت میں بدعنوانی کے مقدمات پر سماعت ہورہی تھی تو فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ اگر پاکستان میں بے لاگ احتساب کیا جائے تو صرف سراج الحق ہی بچیں گے۔ عوام منافقت کی تباہ کن صورتحال سے بچنے کے لئے مستقبل میں ان لوگوں کو منتخب کریں جن کا ماضی داغ دار نہ ہو جنہوں نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی اور قوم کی خدمت کی، جان ومال کی قربانیوں سے ملک کا دفاع کیا۔ جس کے نتیجے میں اچھے کردار کے حامل لوگ کو ملکی اداروں کی سربراہی دی جائے گی، بلکہ سرکاری و غیر سرکاری اور مذہبی اداروں میں باضابطہ تربیتی سیشن منعقد کیے جائیں گے کہ منافقت سے کیسے بچا کر ہم بہتر نتائج برآمد کرسکتے ہیں۔ اس طرح پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے نظریات کے مطابق حقیقت میں ایک اسلامی پاکستان اور خوش حال پاکستان بن کر اسلامی جمہوری اور فلاحی ملک کے طور پر دنیا بھر میں نمایاں مقام حاصل کرلے گا۔ پھر کوئی پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ناپاک جسارت نہیں کرسکے گا۔ اس طرح پاکستانی عوام کو ان شاءاللہ بلا تفریق عدل وانصاف پر مبنی یکساں نظام زندگی میسر ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button