لڑکی کو ہراساں نہ کیا جائے!

انور گریوال
اخبار کے صفحہ آخر کے ’’اپر ہاف‘‘ میں قریباً ہرروز ایک خبر شائع ہوتی ہے ، اُس کا عنوان بھی ہر روزایک جیساہی ہوتا ہے، البتہ تفصیل میں مقام اور نام کی معمولی تبدیلی ہوتی ہے۔ ایک کالمی خبر کی سرخی کچھ یوں ہوتی ہے، ’’مرضی کی شادی کرنے والی لڑکی کو ہراساں و پریشان نہ کرنے کا حکم‘‘۔ والدین کو یہ حکم ضلعی عدالت دیتی ہے، یوں والدین اگر اپنی گھر سے بھاگنے والی بیٹی کی واپسی کے منتظر ہوتے ہیں تو انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ دنیا کے مذاق، بے عزتی، ذلت سے بچنے کے لئے گھر میں منہ چھپانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اپنی شرمساری کو مٹانے کے لئے تو وہ اپنی بیٹی کی واپسی کی کوشش کرتے ہیں، مگر عدالت اُن کو اس قسم کی سرگرمیوں سے منع کر دیتی ہے۔
گھروں سے بھاگنے والی لڑکیاں یہ نہیں سوچتیں کہ اُن کے اِس عمل نے جہاں اُن کے والدین کے سر پر خاک ڈالی وہاں وہ ذِلّت اور غیظ و غضب کی آگ میں جل کر راکھ کا ڈھیر بھی بن گئے۔ وہ لوگوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ اس عمل کا سب سے پہلا ردّ عمل یہ ہوتا ہے کہ لڑکی والے تھانے جا کر رپٹ لکھواتے ہیں کہ اُن کی لڑکی کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ دوسری طرف لڑکی اپنے شوہر سے مل کر عدالت پہنچ جاتی ہے کہ مجھے میرے والدین ہراساں کر رہے ہیں۔ اس کام کا دوسرا اور خطرناک ترین پہلو یہ ہوتا ہے کہ لڑکی کے بھائی اور والد وغیرہ منصوبہ بندی کرتے ہیں، اور موقع ملنے پر دونوں (میاں بیوی) کا خاتمہ کر دیتے ہیں، یا کم از کم اپنی بیٹی کو صلح کے بہانے گھر بلا کر ملکِ عدم روانہ کر دیتے ہیں۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ گھر والوں کو کئی برس کے بعد موقع ملا، یا وہ جوڑی بہت عرصے کے بعد منظرِ عام پر آئی، تو بھی موقع پاتے ہی مار دیئے گئے۔
وہ زمانہ گزرے زیادہ زمانہ نہیں ہوا کہ گھر سے بھاگ کر جانے والی لڑکی کو عمر بھر گھر سے بھاگ جانے کا طعنہ سہنا پڑتا تھا، بہت سی ایسی ہوتی تھیں جو کبھی اپنے والدین کے گھر واپسی کا تصور بھی نہیں کرتی تھیں، کیونکہ اکثر ایسے ہوتا تھا کہ گھر سے بھاگنے کے بعد گھر والوں کو علم ہی نہیں ہو پاتا تھا کہ لڑکی کہاں اور کس کے ساتھ گئی ہے؟ جب کبھی علم ہو جاتا تب تک گھر والے نفرت اور شرم سے اُس سے لاتعلق ہو چکے ہوتے تھے۔ جن کی لڑکی بھاگتی وہ بھی زندگی بھر سر جھکا کر زندگی گزارتے اور جن کے پاس جاتی اُن کی تمام عمر بھی طعنے سُنتے سہتے گزر جاتی۔ پھر ایسا بھی ہوتا تھا کہ ایسے کسی بھی واقعے کا چرچا کئی کئی دیہات تک پھیل جاتا تھا، دراصل یہ بہت بڑی اَن ہونی اور ناپسندیدہ حرکت ہوتی تھی۔
پھر نئی صدی کا ظہور ہوا، میڈیا نے سَر اٹھایا، جہاں کسی غیر لڑکی سے بات کرنا مشکل ہوتا تھا وہاں ہر ہاتھ میں موبائل آگیا، بے حد مشکل رسائی بہت ہی آسان ہو گئی۔ رابطوں کے لئے نامہ بر کا تصور دم توڑ چکا ، پھر کمپنیوں نے پیکیج بنائے اور سب کچھ آسان تر ہو گیا۔ رہی سہی کسر ٹی وی چینلز کے ڈراموں نے نکال دی، اگر یہ کہا جائے کہ قریباً تمام ڈرامے ہی لڑکی کو گھر سے بھاگنے کی ریہرسل کرواتے ہیں، تو بے جانہ ہوگا۔ لڑکیوں کو گھروں سے بھاگنے کے لئے نئے نئے طریقوں سے آشنا کروانا اپنے ڈراموں کی اولین ترجیح ٹھہری۔ پھر اگلے گھر میں جا کر شیرو شکر ہونے کا تصور ممکن نہ تھا، نتیجہ یہی نکلتا کہ کچھ ہی عرصے بعد اختلافات حد عبور کرتے اور نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ۔ یہی ایک اپنے ڈراموں کا سب سے مقبول اور پسندیدہ عنوان ہے، ڈراموں کی دیکھا دیکھی حقیقی زندگی میں بھی اس کا عکس عام دیکھنے میں آنے لگا۔ اب گھر سے بھاگنا معیوب نہیں سمجھا جاتا، اب اگلے گھر جا کر ماحول خراب کرنا فیشن ہے اور طلاق لے کر واپس لوٹنا معمول۔
کوئی زمانہ تھا جب والدین اپنے بچوں کے رشتے طے کر دیتے تھے اور بچوں کی مجال نہیں تھی کہ کسی منفی رد عمل کا مظاہرہ کریں، کوئی ہزاروں میں ایک آدھ واقعہ ایسا ممکن ہے جس میں اولاد نے کوئی احتجاج وغیرہ کیا ہو۔ اگر رشتہ پسند نہیں ، تب بھی والدین کے احترام میں برداشت کیا اور نبھا گئے۔ مگر اب ایسا نہیں۔ والدین کا اگرچہ پہلے بھی یہ فرض موجود تھا کہ وہ اولاد کا رشتہ طے کرنے سے قبل اُس کی رائے ضرور لیں، کسی حد تک قائل بھی کر سکتے تھے، مگر ایسا کم ہوا، اب شعور ضرورت سے شاید زیادہ آگیا ہے، کہ اولاد والدین کی رائے جاننا بھی ضروری نہیں سمجھتی ، وہ فیصلے میں خود مختار بھی ہیں اور جو فیصلہ کر لیا اُسی کو درست قرار دینے کا خبط بھی اُن کے دماغ میں سمایا ہے۔ اوپر سے عدالتوں نے بھی بھاگنے والیوں کے لئے راستہ آسان کر دیا ہے۔
والدین کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لئے اچھا رشتہ تلاش کریں، اس کے بعد اولاد کا فرض ہے کہ وہ خود رشتہ تلاش کرکے والدین کے سامنے کھڑے ہونے کی بجائے درمیانی اور درست راستہ نکالیں۔ مگر اب اولاد کو جوان ہونے کے بعد اپنے رشتے خود ہی تلاش کرنے کی آزادی ملتی جارہی ہے، یہ آزادی حقیقی معانوں میں آوارگی کی ایک قسم ہے، جو حد سے بڑھنے کے بعد بے راہ روی پر بھی منتج ہوتی ہے۔ آزادانہ میل جول نوجوان نسل کو نہ گھر کا رکھتا ہے نہ گھاٹ کا ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ آزادی حد عبور کرکے جب آوارگی کی سرحد میں داخل ہوتی ہے تو عدالتی فیصلوں کے ساتھ ساتھ مادر پدر آزاد میڈیا بھی اُن کا حامی و سر پرست بن کر سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔
پھر سوشل میڈیا کے تبصروں میں ایسے بے شمار خدائی خدمتگار دستیاب ہو جاتے ہیں، جن کا لڑکی والوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، مگر لڑکی کے عمل کی تائید کرکے انہوںنے ثوابِ دارین ضرور حاصل کرنا ہوتا ہے، اور اس عمل کے مخالفین کے منہ بند کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنی ہوتی ہیں۔ اب اس کارِ بد کی مخالفت کرنے والوں کو معاشرے کے معقول اور کار آمد شہری نہیں سمجھا جاتا، وہ تنگ نظر اور دقیانوسی لوگ ہیں، جدید تہذیب اور حالاتِ حاضرہ سے آشنا وہی لوگ ہیں جو اِس قسم کی آزادی کے حامی ہیں۔ دونوں فریق معاملے کو اعتدال پر لانے کی بجائے نفرت اور مخالفت کو ہوا دینے کے عمل میں مصروف ہیں۔ گھروں سے بھاگنے والیوں کی رفتار یہی رہی اور اُن کی یوں ہی حوصلہ افزائی ہوتی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب برائی کو برائی کہنا بھی جُرم قرار پائے گا، ایسے کام کرنے والے معزز کہلائیں گے اور مخالفت کرنے والے منہ چھپاتے پھریں گے۔