میں خود ہی جلوہ ریز ہوں خود ہی نگاہ شوق

غلام فرید بھٹہ (فلپائن)
خالص میں بڑی معنی آفرینی ہے یہی ہر رشتے کی اساس بھی ہے اس کے بغیررشتے نامکمل اور ناپائیدار ہی رہتے ہیں خالق کون ومکاں نے بھی خالص کو ہی شرط اول قرار دیا ہے خلوص ہے تو سب کچھ ہے ورنہ کچھ بھی نہیں یہی پہلا درجہ اور پہلی سیڑھی ہے جہاں سے اگلی منزلوں کے راستے نکلتے ہیں ورنہ تو پہلی سیڑھی پر کھڑے کھڑے عمر بیت جاتی ہے کوئی راستہ نظر ہی نہیں آتا اور پھر
مکتب عشق کے دستور نرالے دیکھے
ا س کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
داخلہ بھی اسی کو ملتا ہے جو خالص ہو اورجس کو داخلہ مل جائے وہ خود بھی پھر چھٹی نہیں کرنا چاہتا جو خالص نہ ہوں ان کو اس مکتب میں داخلہ ہی نہیں ملتا۔
اس میں ایک فسوں ہے، جاذبیت ہے کہ جہاں آفاق گم ہوتے ہیں وہ آفاق میں گم نہیں ہوتاوہ زمانوں کا محتاج نہیں رہتا وہ خود زمانوں کی رفتار مقرر کرتا ہے فاصلے مٹ جاتے ہیں۔
ندیم اختر ندیم ایک ایسے شخص کا نام ہے جس میں آفاق گم ہوتے دکھائی پڑتے ہیں اس کو زمانوں کی احتیاج نہیں زمانوں کو اس کی اجازت درکار ہے اور یہی اس کے خالص ہونے کا روشن ثبوت ہے۔
ہم ایک دوسرے کو کب سے جانتے ہیں اس کا حتمی جواب نہ وہ دے سکتا ہے نہ میرے پاس ہے۔
مجھے یاد ہے جب ہم پہلی بار ملے تھے ایسے ہی تھا جیسے برسوں کے بچھڑے ملتے ہیں وہ جو کہتے ہیں رشتے آسمانوں پر جڑتے ہیں وہ درست کہتے ہیں ہر رشتہ وہیں سے جڑاہوتا ہے وہاں سے جڑے رشتوں میں بیگانگی نہیں اپنائیت ہوتی ہے جب بھی ملیں۔ ہمارے کچھ احباب نے تو یہ پوچھ بھی لیا کہ آپ پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں؟ ندیم کی مسکراہٹ بہت بھلی لگتی ہے میں بھی اس کے ساتھ ہی کھڑا تھا ہم دونوں ہی مسکرا دیئے کیونکہ یہی جواب بھی تھا۔
جی ہاں!
صاحبو ؛ ندیم اختر ندیم ایسی ہی شخصیت کا نام ہے جن دنوں کی ہم بات کر رہے ہیں یہ ندیم اختر گھائل ہوا کرتے تھے زخم مندمل ہوئے تو اول اور آخر ندیم ہوگئے درمیان میں پہلے بھی اختر تھے بعد میں بھی اختر ہی رہے ہمارا رشتہ کچھ اس طرح جڑا اور اس قدر مضبوط ہوا کہ جس دن کسی وجہ سے ملاقات نہ ہو پاتی تو ایک بے چینی سی رہتی جیسے کوئی بہت ضروری کام تھا جو نہ ہو سکا۔
خالص رشتوں میں اداکاری یا ریاکاری نہیں ہوتی اس کی اپنی ایک علیحدہ پہچان ایک الگ دنیا ہوتی ہے ورنہ اس دور پر آشوب میں اداکاری و ریاکاری کا ہی چلن ہے جو وقتی طور پر خوش نما اور پر اثر دکھائی دیتی ہے لیکن ایک ڈرامہ یا فلم کی طرح لمحات کے محتاج ہوتے ہیں جب لمحات کی گرفت ڈھیلی پڑتی ہے تو پھسل جاتے ہیں سامنے ایک صاف پردہ ہی رہ جاتا ہے۔
ہماری دوستی کا رشتہ بھی کبھی لمحات کا قیدی نہیں رہا بلکہ لمحات کو قیدی بنالیااسی لئے کب اور کیسے پہلی ملاقات ہوئی اس کو یاد رکھنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی یہ تو ازلی رشتے ہوتے ہیں جب بھی جڑ جائیں عمروں کا جو بھی فرق ہو درمیان میں زمینی فاصلے کس قدر ہوں آفاقی رشتوں میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ندیم اختر گونا گوں خوبیوں کا مرقعہ ہے جو اس کی شخصیت کو مزید نکھارتی ہیں اسی لئے اس کی شخصیت میں نکھار وقار جاذبیت اور سحر ہے جو دوسروں کو اپنی طرف متوجہ ہی نہیں کرتابلکہ اپنی گرفت میں کر لیتا ہے یوں وہ دوبارہ ملنے کی خواہش پر قابو پانے سے قاصر ہوتا ہے۔ ندیم شاعر ہے ،ادیب ہے ،اور کالم نگار ہے جو بات اس کے قلم سے نکلتی ہے اپنا اثر رکھتی ہے خوبصورت اور نازک شاعری اس کا طرہ امتیاز ہے اور ہر صنف میں اپنی بات کہنے میں ماہر ہے ادیب ہے تو لاجواب نثر پارے اس کے قلم کے ذریعے صفحہ قرطاس پر بکھرتے چلے جاتے ہیں کالم لکھتا ہے تو پڑھنے والا آنکھیں جھپکنا بھول جاتا ہے۔شعر کہتا ہے تو ترنم سا بکھر جاتا ہے۔
ہم غیر ملکی مشاعروں میں بھی ساتھ رہے۔ ہم نے بہت وقت ایک ساتھ گزارا گفتنی ناگفتنی ہر طرح کی باتیں ہوئیں روزانہ ملاقات ہوتی ڈھیروں باتیں ہوتیں بحث بھی ہوتی لیکن یہ سلسلہ ہنستے مسکراتے شروع ہوتا اور ہنستے مسکراتے ہی اختتام پذیر بھی ہوتا ۔پھر وقت نے اپنی چال چلی زمینی فاصلے درمیان میں حائل کر دیئے لیکن دوستی وہ جذبہ ہے جو وقت کے ان ہتھکنڈوں کو خاطر میں نہیں لاتا دلوں میں فاصلے نہ زمانہ حائل کرسکتا ہے نہ وقت کے پاس اس کا اختیار ہے یہی آفاقیت کی واضح اور مضبوط دلیل بھی ہے۔
صاحبو ؛پر خلوص لوگوں میں لاپرواہی اور غنائیت بھی بلا کی ہوتی ہے اس لئے ان کی توجہ تو ہر طرف رہتی ہے مگراپنے کاموں کو سنبھالنا کیسے ہے اس کاہوش نہیں ہوتاکیوں کہ نام ونمود کا شوق ہی نہیں ہوتا اسی لئے بھی بہت سا اثاثہ ضائع کر بیٹھتے ہیں اور اس کا انہیں کوئی دکھ بھی نہیں ہوتا کوئی دکھ پالتے ہی نہیں کوئی اور اس طرف متوجہ ہو اور زبردستی ان سے کوئی ایسا کام کروالے تو ٹھیک ورنہ خود ایسی کوئی خواہش نہیں ہوتی آپ اصرار کرتے رہیں یہ مسکراتے رہیں گےیہی وجہ ہے کہ ندیم اختر ندیم کی ابھی تک کوئی کتاب زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکی حالانکہ بیس سال قبل انہوں نے اپنا مسودہ الحمد پبلیکشنز کو دیا پیسے بھی ادا کردئیے ایگریمنٹ بھی سائن ہوگیا الحمد نے انہیں پروف ریڈنگ کے لئے مسودہ بھیجا جسے آج بیس بائیس سال بعد بھی یہ انہیں واپس نہ کرسکے اس سے آپ ان کی شاعرانہ طبیعت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
دیکھا جائے تو جب سے اور جس رفتار سے حضرت لکھ رہے ہیں انہیں بسیار نویس تو نہیں کہا جاسکتا لیکن کم بھی نہیں لکھتے ان کی اب تک چھ سات کتابیں تو شائع ہو سکتی تھیں حالانکہ ان کے پاس اتنا ادبی ذخیرہ بھی ہے لیکن یہ دوسروں کی شعری اصلاح میں لگے رہےیہ دنیا ِ ادب میں ایک ہلچل مچانے کی تمام تر صلاحیتوں سے مالا مال ہیں یہ کام کون کر سکتا ہے کون کرے گا کچھ کہا نہیں جاسکتا میرا مشورہ تو یہی ہے کہ یہ خود بھی اس طرف متوجہ ہوں اور احباب بھی کوشش کریں۔
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تندو تیز
ان کے خلوص ،محبت ،تحمل مزاجی ،مسکراہٹیں دوستوں کے لئے آب حیات کی تاثیر رکھتی ہیں گفتار میں ،کردار میں ،رفتار میں ایک فسوں ہے جہاں بیٹھ جائیں محفل کو اپنا گرویدہ بنانے کاہنر جانتے ہیں نپی تلی گفتگو اختلاف سے گریز اور خوبصورت لب و لہجے سے ماحول کی دلفریبی میں اور اضافہ ہوجاتا ہے جلوت و خلوت میں ایک ہی جیسے ہیں خلوت ہو تو خود میں گم جلوت ہو تو دوستوں میں گم میں خود ہی جلوہ ریز ہوں خود ہی نگاہ شوق شفاف پانیوں میں جھکی ڈال کی طرح ندیم اختر ندیم کی شخصیت کے لئے یہی بہترین عنوان ہو سکتا تھا ۔ندیم اختر کو اگر آپ سمجھنے کے خواہشمند ہیں تو پھر آپ کے لئے یہ نظارہ دیکھنا بے حد ضروری ہے ہو سکتا ہے آپ نے دیکھا لیکن اس نقطہ نظر سے نہ دیکھا ہو یا اگر نہیں دیکھا تو ہم مشورہ دیں گے ضرور اور پوری توجہ سے دیکھیں خوبصورت پھولوں سے جھکی ڈال جیسے ستائش اور تعریف سے بے نیاز پانی کی روانی سے اٹھکیلیاں کرتی ہے اس کو اس سے کچھ غرض نہیں کوئی دیکھے وہ خود ہی خود کر دیکھ کر اپنی ہی خوبصورتیوں میں گم ارد گرد کے ماحول سے بے خبر لیکن دیکھنے والے کے دل و دماغ ،احساسات اور نگاہوں کو جکڑ لیتی ہے یہ خوبصورتی دیکھنے والے کو وہاں سے ہٹنا بھی گراں گزرتا ہے یہ نظارہ دیکھ کر آپ بے اختیار پکار اٹھیں گے۔ یہی ندیم اختر ندیم ہے۔