ایڈیٹوریل

انٹرا پارٹی انتخابات یا آنکھوں میں دھول !

الیکشن کمشن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا بلے کا نشان برقرار رکھتے ہوئے 20 روز میں دوبارہ انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا حکم دیا۔ الیکشن کمشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق محفوظ فیصلہ سنا یا۔ فیصلے میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے آئین کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروائے، پاکستان تحریک انصاف 20 روز کے اندر دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کروائے۔ الیکشن کمشن کے فیصلے فیصلے پر پی ٹی آئی نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور عدالت سے رجوع کرلیا ہے اور عدالت جو بھی فیصلہ دے گی وہ سامنے آجائے گی۔ چونکہ ہمارے ملک میں منشور کی بجائے موروثی سیاست کا نظام نسل در نسل سے چلتا آیا ہے، لہٰذا جس طرح ہماری جمہوریت کو خود لولی لنگڑی جمہوریت کہتے ہیں بالکل اسی طرح کے پارٹیوں میں لولی لنگڑے انٹرا پارٹی انتخابات ہوتے ہیں، لہٰذا جب بھی پارٹیوں کے اندر انتخابات ہوتے ہیں ہمیشہ پارٹی سربراہ ہی کامیاب گردانے جاتے ہیں، لیکن پھر بھی قانونی تقاضے اور کاغذی کارروائی پوری کرنے کے لئے ایک دو فرضی امیدوار سامنے لائے جاتے ہیں جو قبل از انتخاب اپنے کاغذات نامزدگی واپس لیکر پارٹی سربراہ کی کامیابی میں روڑے اٹکانے سے باز رہتے ہیں۔ اول تو کارکنوں کی کوئی سیاسی تربیت ہوتی ہی نہیں اسی لئے کوئی بھی انہونی ہونا قطعی ممکن ہوتا ہے جیسے امن و امان کی صورت حال میں خرابی اور بسا اوقات قومی املاک اور اداروں پر حملے۔ لیکن ایسا ہمارے یہاں ہی ہوتا ہے، پوری دنیا میں ایک یا زیادہ سے زیادہ دوبار کسی عوامی عہدے کے لئے لوگ منتخب ہوتے ہیں، امریکہ کا صدر ہونا ہے ہی ہمہ وقت خمار اور اعزاز لیکن وہاں بھی دیکھیں تو باراک ابامہ، بش سنیئر و بش جونیئر اور اب جو بائیڈن مطلب بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں انتخابات میں کامیابی کے بعد کسی اور کو صدر یا وزیراعظم کے لئے سامنے لاتی ہیں مگر یہاں چونکہ شخصیت پرستی کا معاملہ ہے لہٰذا فخریہ کہا جاتا ہے فلاں لیڈر تیسری بار، فلاں لیڈر چوتھی بار، یعنی سیاسی جماعتوں کے پاس ماسوائے شخصیت پرستی کے ، کوئی اور گنجائش ہی نہیں ہوتی کسی دوسرے کو آگے لانے کی، ابھی پارٹی سربراہ صحت اور سیاست میں قائم و دائم ہوتے ہیں اسی دوران اِن کے بچوں کی سیاسی تربیت شروع کردی جاتی ہے، لہٰذا پارٹی کے دوسرے لوگ منہ دیکھتے وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں، مگر بسا اوقات اپنی پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شامل ہوکر اچھا عہدہ لے لیتے ہیں ہمارے سامنے سید یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی اور رانا ثنا اللہ سمیت ایسی کئی مثالیں ہیں۔ ایک دھڑکا انہیں شاید یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر اصل انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے اور عہدہ بھی مل گیا تو کہیں عوام میں پذیرائی نہ ملے اور پارٹی کو نقصان ہو۔ ابھی چند روز قبل ہی جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو اُن کی مجلس شوریٰ نے ایک بار پھر امیر منتخب کرلیا ہے، حالانکہ اُن کے بعد بھی معتبر اور تجربہ کار بزرگ شخصیات ہیں ، پیپلز پارٹی میں تیسری ، مسلم لیگ نون میں دوسری، عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ قاف میں دوسری اور ایسی ہی کتنی سیاسی جماعتیں ہیں جن میں نام نہاد انٹرا پارٹی انتخابات ہوتے ہیں اور پھر اگلی نسل اُس کرسی کے لئے تیار ہوتی ہے۔ اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پارٹیاں فرضی سا منشور تیار کرتی ہیں کیونکہ الیکشن کمشن اور قانونی ضرورت ہوتی ہے اِس لئے ہر پارٹی ایسا منشور خوبصورت جلد میں جڑاواکر الیکشن کمشن کو جمع کرادیتی ہے جس کی ہر سطر پڑھنے سے لگتا ہے کہ اِس بار یہ پارٹی ملک کو جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنادے گی مگر یہ صرف آئینی ضرورت پوری کرنے کے لئے ہوتا ہے عملاً نہ تو وہ قابل عمل ہوتا ہے اور نہ ہی آج تک ہوا ہے، اور دوسری طرف اپنے قائدین کی طرح اصل جمہوریت سے ناواقف عوام نہ تو منشور پر سوال اٹھاتی ہے اور نہ ہی سوال اٹھانے کی اجازت ہوتی ہے، اسی لئے یہ کہنا قطعی بے جا نہ ہوگا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ، موروثی سیاست ، منشور اور انتخابی وعدے موسمی پھل و سبزیوں کی طرح ہوتے ہیں جو کچھ ماہ بعد نظر نہیں آتے اور پھر منہ چھپانے کے لئے کہا جاتا ہے کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیاگیا وگرنہ ملک میں دودھ اورشہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔

جواب دیں

Back to top button