ایڈیٹوریل

فلسطین اور اسرائیل میں عارضی جنگ بندی

فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہوچکا ہے اور جنگ بندی ہونے تک اسرائیلی حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد14ہزار532 ہو گئی جن میں6ہزار بچے اور 4ہزار خواتین شامل ہیں۔ اسرائیلی بربریت سے غزہ کی ساٹھ فیصد عمارتیں مکمل یا جزوی تباہ ہوچکی ہیں اور قریباًسات ہزارافراد لاپتہ ہیں جن میںپانچ ہزار کے لگ بھگ خواتین اور بچے شامل ہیں۔حماس اور غزہ میں سرگرم اسلامی جہاد تنظیم نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی پر اس وقت تک کار بند رہیں گے جب تک اسرائیلی فوج اس کی خلاف ورزی نہیں کرتی۔ لیکن غزہ میں جنگ بندی کے مذاکرات کے دوران بھی اسرائیلی فورسز نے ہسپتالوں ، کیمپوں اور شہری آبادی پر فضائی حملے کئے ، توپخانے اور ٹینکوں سے گولہ باری جاری رکھی جن کے نتیجے میں مزید سیکڑوں فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔جبالیہ کیمپ کی ایک عمارت پر بمباری میں ایک خاندان کے 52افراد شہید ہوگئے۔ اسرائیلی جنگی کابینہ کے بعد اسرائیلی کابینہ نے بھی غزہ میں عارضی جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی منظوری دی۔معاہدے کے مطابق پانچ روز کے لئے جنگ بندی ہوگی ، اسرائیل پچاس یہودیوں کے بدلے میں ایک سو پچاس فلسطینیوں کو رہا کرے گا۔ تاہم اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کہہ چکا ہے کہ عارضی جنگ بندی کا معاہدہ جنگ کا اختتام نہیں ہے اور جنگ جاری رہے گی۔ اِس ساری صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی حقوق سمت عالمی اداروں کا دبائو، دنیا بھر میں اسرائیلی بربریت کے خلاف عوامی احتجاج کے باوجود اسرائیل اپنے مذموم مقاصد کا حصول چاہتا ہے اور یہ واحد مقصد فلسطینیوں کو اُنہی کی سرزمین سے بے دخل کرکے ارض فلسطین کی مقدس سرزمین پر قبضہ ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے مابین عارضی جنگ بندی کے بعد دوبارہ اسرائیل بربریت پر اُترآئے گا جیسا کہ اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے عزائم سے ظاہر بھی کیا ہے، اِس لئے ضرورت ہے کہ اسلامی دنیا اِس معاملے پر اپنی تشویش کو برقرار رکھتے ہوئے ایسے لائحہ عمل تک پہنچے جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کو آزادی اور زندہ رہنے کا حق مل سکے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلامی دنیا اِس معاملے پر اپنا کردار ادا کررہی ہے مگر جتنا دبائو اسرائیل اور اِس کی پشت پناہی کرنے والے ملکوں پر ڈالنا چاہیے ویسا دبائو ابھی تک نہیں ڈالا جاسکا، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے ناپاک قدم بڑھ رہے ہیں اور وہ فلسطینیوں کی جلد ازجلد نسل کشی کرکے اپنا مکمل تسلط اِس ارض مقدس پر چاہتا ہے جہاں وہ پناہ کی غرض سے آیا تھا لیکن عالمی اداروں نے اِس ارض مقدس پر پنجے گاڑھنے کے لئے اِس کی مکمل سہولت کاری اور پرامن خطے کو آگ و بارود میں جھونک دیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس مقصد کے لئے عالمی اداروں کا قیام عمل میں لایاگیا تھا وہ تو حالیہ چند دہائیوں میں سب کے سامنے عیاں ہوچکا ہے، اِن عالمی اداروں کو بڑی طاقتیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہیں اور اپنے رحم و کرم پر موجود کمزور ملکوں سے اِن اداروں میں اپنے مذموم مقاصد کی توثیق حاصل کرکے کسی بھی پرامن خطے کو تباہ و برباد کیا جاسکے۔ عراق، شام، لیبیااور افغانستان سمیت کئی ممالک کی تباہی کے فیصلے انہی اداروں کی چھتری تلے ہوئے اور آج تک وہ ملک اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکے۔ پھر جن تنازعات اور اِن کے نتیجے میں اُن اقوام کی نسل کشی مقصد تھا وہ آج بھی برقرار ہیں جن میں فلسطین اور مقبوضہ کشمیر نمایاں ہیں۔ اس لئے اسلامی دنیا کے لئے ضروری ہے کہ اس عارضی جنگ بندی کو نہ دیکھے بلکہ اسرائیلی وزیراعظم کے عزائم کو بھی مدنظررکھے اور آنے والے وقتوں کی نسلوں کے تحفظ کے لئے ایسا ٹھوس کام کریں تاکہ کشمیر اور فلسطین کے بعد اب کسی مسلمان ملک کو نشانے پر نہ رکھا جائے، کیونکہ ہمیشہ سے مسلم دنیا ہی مغرب کے زیر عتاب رہی ہے اس کی واضح مثال بے جا اور غلط پابندیوں کا اطلاق ہے جس کی زد میں پاکستان اور ایران سمیت کئی مسلمان ممالک آچکے ہیں مگر جہاں چھوٹ دینی ہوتی ہے وہاں بھارت اور اسرائیل جیسے عالمی دہشت گردوں کو بھی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے جو انہیں ابھی تک حاصل ہے اور یقیناً تب تک حاصل رہے گی جب تک مسلم دنیا حقیقی معنوں میں متحد اور متفق ہوکر سامنے نہیں آتی ۔

جواب دیں

Back to top button