ایک حقیقت مگر تلخ ۔۔۔۔؟

جب تک انسـان کو پانی نہیں ملتا اسے یوں لگتا ہےکہ وہ پیاس سے مـر جائے گا مـگر پانی کا گھونٹ بھرتے ہی دوسـری چیزوں کے بارے میں سوچنے لگتا ہے پھر اسے یہ خیـال بھی نہیں آتا کہ وہ پیاس سے مرسکتا تھا۔ جب پانی مل جاتا ہے تو پھر اور چیزیں اس کی پیاس بن جاتی ہیں ، مرتاتو انسان اپنے وقت پہ ہے، اور اسی طـرح جس طـرح خدا چاہتا ہے۔ مگر دنیا میں اتنی چیزیں انسان کی پیاس بن جاتی ہیں کہ پھر زندہ رہتے ہوئے بھی بار بار مـوت کےتـجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔
خواہش، طلب، آرزو، چاہت، یہ وہ چند الفاظ ہیں جن سے ہماری زندگی کبھی خالی نہیں ہوتی۔ خواہشات کبھی پوری نہیں ہوتیں۔ جب ایک خواہش پوری ہوتی ہے تو دوسری خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ سلسلہ ساری زندگی چلتا رہتا ہے۔
سکول کے زمانے میں کتاب میں ایک کوے کی کہانی پڑھتے تھے۔ پیاسا کوا کس طرح اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ جوں ہی پیاس بجھتی ہے تو وہ دانےدنکے کی فکر میں چلا جاتا ہے۔ بچوں کے لئے گھونسلہ بناتا ہے۔ مادہ انڈے دیتی ہے۔ اور کوا بچوں کو پالنے کے لئے دانا دنکا اور خوراک تلاش کرتا ہے۔ اوراس کہانی کا نتیجہ بھی پڑھا۔ (ضرورت ایجاد کی ماں ہے)گزرے زمانے میں لوگ مویشی اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے پالتے تھے۔ زیادہ تر کام جانور کرتے تھے۔ اگر بیل ہے تو ہل چلانے کے کام آتا تھا۔ بیل گاڑی کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ تیلی اس کو تیل نکالنے کے لئے کولہو پر جوت لیتے تھے۔ زمیندار کنویں سے پانی نکالنے کے لئے استعمال کر لیتے تھے۔ جب تک وہ صحیح چلتا رہتا تھا، اس کی خاطر تواضع اور چارہ وغیرہ ملتا رہتا تھا۔ جب کسی کام کا نہیں رہتا تو قصائی لے جاتے ہیں۔ پوہ اور ماگھ کے مہینے میں زمیندار سردی کی وجہ سے دھوپ میں سوتری جو پٹ سن سے ملتی جلتی ہے اس کا ریشہ نکال کر بیلوں کی رسیاں اور چارپائیاں بناتے تھے۔ کنوئیں سے پانی نکالنے کے لئے رسی بناتے تھے۔ سہاگہ یا میڑا زمین ہموار کرنے کے لئے رسہ بناتے۔ دیسی توت کی شاخیں کاٹ کر ٹوکرا یا کھارا بناتے۔ جو دہی کے ڈولے پر رکھا جاتا تاکہ کسی کتے بلے سے محفوظ رہے۔ مرغی اور چوزوں پر رکھ دیتے تاکہ بلی سے چوزے محفوظ رہیں۔ سردیوں میں اپنے لئے بھی پنجیری سناسترہ بناتے جس میں سوجی، گڑ، گندم کا نشاستہ،میوہ ،کھوپرا، بادام، اخروٹ ، چار مغز اور دوسرے خشک میوے گائے کے مکھن میں پکاتے تاکہ سردی سے بچیں اور طاقت ملے۔ مویشیوں کی حفاظت کے لئے تارا میرا کڑوا تیل جس کو ہم جماں کا تیل کہتے ہم اپنی ذمین میں اگاتے تھے ۔ تیلی سے تیل نکلوا کر خود بھی میٹھا کرکے پراٹھے اور سرسوں کے ساگ پکاتے۔ اور مویشیوں کے لئے کھل بھی نکلتی۔ جماں کے کڑوے تیل میں مویشیوں کا گندا گڑ ڈال کر بانس کے نلے سے والد صاحب بیلوں کا منہ کھول کر گلے میں انڈیلتے تاکہ چکنائی اور روغنیات کی ضروریات پوری ہو جائیں ۔ والد صاحب کھیوڑہ کا نمک کا پورا کھٹا لا کر بیلوں کی کھرلی میں رکھ دیتے مویشی چاٹتے رہتے تاکہ ان کی نمک کی کمی بھی پوری ہو جائے۔ پھاگن کے مہینے میں جب زمیندار زمیں فصل کے لئے ہل بیلوں کے پیچھے جوتتے تو پہلے دن دو گندم کی دو روٹیاں ساتھ لے کر جاتے۔ ہل جونٹ یا پنجالی جوت کر بیلوں کے سامنے روٹی رکھ کر برکت کے لئے دعا پڑھتے اور ایک ایک روٹی دونوں بیلوں کو کھلا دیتے اور کھیت میں ہل چلانا شروع کرتے۔ بیل پہلے دوندا ہوتا پھر چوگا ہوتا پھر چھگا ہوتا پھر پورے دانت نکلتے یعنی جوان ہو جاتا۔ کرینچی بیل گاڑی رہٹ اور ہل چلانے کے قابل ہو جاتا۔ کچھ عرصے یا سالوں کے بعد جب بوڑھا ہوتا تو کسی کام کے قابل نہیں رہتا تو چارہ اور خوراک بچانے کے لئے قصائی کو بلا کر سودا کر کے بیچ دیتے تھے۔ یوں قصائی کی ضرورت بھی پوری ہو جاتی تھی۔ اور کچھ پیسے مالک کو بھی مل جاتے تھے۔ تاکہ گھر کی چھوٹی بڑی ضروریات پوری ہو سکیں۔ آج کل مشینی دور ہے ہر کام ٹریکٹر، تھریشر ٹرالی اور بجلی کی موٹریں پوری کر دیتی ہیں۔ اب بیلوں کی ضرورت نہیں رہی۔ لوگ شوقیہ بیل پالتے ہیں خوب خدمت کرتے ہیں تاکہ قربانی پر اچھے پیسے کما لیں۔ یہ سارے کام لوگ اپنی ضروریات کے لئے کرتے ہیں۔ لوگ گائے بھینس پرانے وقتوں میں بھی اپنی ضروریات کے لئے پالتے تھے اور آجکل بھی پالتے ہیں۔جب تک دودھ دیتی رہتی ہے اور بچے پیدا کرتی رہتی ہے تو اس کی خوب خدمت کی جاتی ہے۔ کیونکہ دودھ کی ضرورت ہر ایک کو ہے۔ جب تک دودھ ملتا رہتا ہے۔ اس کی خوب خدمت کی جاتی ہے۔ تاکہ زیادہ دودھ دے اور گھر کی ضرورت پوری ہو۔ اگر دودھ فالتو ہے تو دودھ بیچ کر ضروریات پوری ہو سکیں۔ گائے دودھ کے ساتھ ساتھ بچے بھی پیدا کرتی تھی۔ اگر بچھڑا ہے تو اس کی خوب خدمت ہوتی تاکہ تگڑا بیل بنے۔ اب لوگ بیل شوقیہ پالتے ہیں۔ اور بیل ہو یا بچھڑا خوب خدمت کی جاتی ہے تاکہ قربانی پر اچھے پیسے دے جائے۔ اور گھر کی ضرورت پوری ہو جائے۔ اگر بچھڑی ہے تو بھی خدمت کی جاتی۔ تاکہ بڑی ہو کر گائے بن جائے۔ بھینس کی اگر کٹی ہے تو اس کے حفاظت کی جاتی تاکہ بڑی ہو کر بھینس بنے جائے۔ اگر کٹا ہے تو اس پر توجہ کم دی جاتی۔ اور بھینس کا سارا دودھ نکال لیا جاتا۔ دودھ کی کمی کی وجہ سے کٹا کمزور ہو جاتا تو قصائی کو بیچ دیتے۔ ان پیسوں سے گھر کی ضرورت پوری کر لیتے۔قصائی بھی کٹا ذبح کر کے خوب پیسے کما لیتا۔ گائے بھینس اگر بوڑھی ہو جائے اور دودھ دینے کے قابل نہ رہے تو چارہ کے کمی اور خدمت کی کمی سے کمزور ہو جاتی ہے تو قصائی کو بیچ کر پیسے کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ اور قصائی کی دکان بھی چل جاتی ہے۔ ایسے کچھ لوگ بھیڑ بکریاں پالتے ہیں اپنی وہی ضروریات پوری کرنے کے لئے۔ والدین بھی جب تک صحتمند رہتے ہیں۔ چلتے پھرتے رہتے ہیں تو اولاد کو اچھے لگتے ہیں۔ بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں تو باپ کماتا رہتا ہے۔ گھر کی ہر ضرورت پوری کرتا ہے۔ بچوں کو پڑھاتا ہے ۔ گھر بناتا ہے۔ انکی شادیاں کرتا ہے۔ اور ان کی اولاد کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ پر باپ کی محبت یہ ہے کہ پیاس لگی تو خود کو اور اتنا زیادہ تھکایا ۔ دیس پردیس کی خاک چھانی ملازمت کی۔ جھڑکیاں کھائیں۔ لیکن ہر تکلیف سہتا رہا کماتا رہا۔
جہاں تک بات ماں کی محبت کی ہے تو اس بابت تو تب سے لکھا جارہا ہے جب سے حضرت انسان نے لکھنا سیکھا تھا لیکن باپ ایک ایسی ذات ہے جس کے بارے میں شاید باپ نے بھی کبھی کھل کر نہیں لکھا اور بھلا لکھ بھی کیسے سکتا ہے کہ باپ کی محبت کا ہر رنگ نرالا اور مختلف ہے۔ ماں کی محبت تو بچے کی پیدائش سے اس کی آخری عمر تک ایک سی ہی رہتی ہے یعنی اپنے بچے کی ہر برائی پر پردہ ڈال کر اسے چاہتے رہنا،بچپن میں بچہ اگر مٹی کھائے تو اس پر پردہ ڈالتی ہے اور باپ سے بچاتی ہے ، نوجوانی میں بچے کی پڑھائی کا نتیجہ آئے تو اس رپورٹ کارڈ کو باپ سے چھپاتی ہے اور اپنے بچے کو بچاتی ہے ، جوانی میں بچے کا دیر سے گھر آنا باپ سے چھپاتی ہے اور اپنے بچے کو بچاتی ہے ٹھیک اسی طرح جیسے جیسے بچہ بڑا اور اسکے آوارہ گردی بڑھتی جاتی ہے۔ اور ماں ویسے ویسے بچوں کے پردے کا دامن پھیلاتی چلی جاتی ہے ۔ اسکے برعکس باپ ایک ایسی ہستی ہے جو اپنی اولاد کو بے پناہ چاہنے کے باوجود صرف اس لئے اس کو ڈانٹتا ہے کہ کہیں بچہ خود کو بڑے نقصان میں مبتلا نہ کر بیٹھے ، اس کی پڑھائی پر سختی برتتا ہے کہ کہیں اس کا بچہ کم علم ہونے کے باعث کسی دوسرے کا محتاج نہ بن کر رہ جائے ، بچے کا رات دیر سے گھر آنا اس لئے کھٹکتا ہے کہ کہیں کسی بری لت میں مبتلا ہوکر بچہ اپنی صحت اور مستقبل نہ خراب کر بیٹھے یعنی بچے کی پیدائش سے لیکر قبر تک باپ کی زندگی کا محور اس کا بچہ اور اس کا مستقبل ہی رہتا ہے۔ جہاں ماں کی محبت اس کی آنکھوں سے اور عمل سے ہر وقت عیاں ہوتی ہے، وہیں باپ کی محبت کا خزانہ سات پردوں میں چھپا رہتا ہے۔ غصہ ، پابندیاں ، ڈانٹ ، سختی یہ سب وہ پردے ہیں جن میں باپ اپنی محبتوں کو چھپا کر رکھتا ہے کہ بھلے اس کی اولاد اسے غلط سمجھے پر وہ یہ سب پردے قائم رکھتا ہے کہ اس کی اولاد انہی پردوں کی بدولت کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کرتی ہے۔ جیسے جیسے اولاد کا اختیار بڑھتا اور والد کا اختیار گھٹتا جاتا ہے، ویسے ویسے ہی باپ مرنا شروع ہوجاتا ہے۔باپ سانسیں لیتے ہوئے بھی مر جاتے ہیں جب بچہ طاقتور جوان ہونے لگتا ہے تو باپ کا ہاتھ بعض اوقات اس خوف سے بھی اٹھنے سے رک جاتا ہے کہ کہیں بیٹے نے بھی پلٹ کر جواب دے دیا تو اس قیامت کو میں کیسے سہوں گا ؟
باپ ہو یا ماں جب اولاد کی توجہ اپنے والدین سے ہٹ جاتی ہے۔ تو والدین کو بہت مایوسی ہوتی ہے۔ جیسے جیسے اولاد کا اختیار بڑھتا اور والد کا اختیار گھٹتا جاتا ہے ویسے ویسے ہی باپ مرنا شروع ہوجاتا ہےجب بچے اپنے فیصلے خود لینے لگیں اور فیصلے لینے کے بعد باپ کو آگاہ کر کے حجت پوری کی جانے لگے تو بوڑھا شخص تو زندہ رہتا ہے پر اس کے اندر کا باپ مرنا شروع ہوجاتا ہے۔ باپ اس وقت تک زندہ ہے جب تک اس اولاد پر اس کا حق قائم ہے جس اولاد سے اس نے اتنی محبت کی کہ اپنے دل پر پتھر رکھ کر اسے تھپڑ بھی مارا ، اولاد کے آنسو بھلے کلیجہ چیر رہے ہوں پر پھر بھی اس لئے ڈانٹا کہ کہیں نا سمجھ اولاد خود کو بڑی تکلیف میں مبتلا نہ کرے ۔۔۔ ماں کی محبت تو یہ ہے کہ پیاس لگی (پیار آیا) تو پانی پی لیا جب بچوں کی تمام ضروریات ہو جائیں تو وہ والدین پر توجہ دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ باپ کی محبت اولاد سے ماسوائے اس کے اور کچھ نہیں مانگتی کہ باپ کو زندہ رکھا جائے ، پھر چاہے وہ چارپائی پر پڑا کوئی بہت ہی بیمار اور کمزور انسان ہی کیوں نہ ہو، اگر اس کے اندر کا باپ زندہ ہے تو یقین جانیے اسے زندگی میں اور کسی شے کی خواہش اور ضرورت نہیں ہے، اگر آپ کے والد صاحب سلامت ہیں تو خدارا اس کے اندر کا باپ زندہ رکھئے یہ اس بوڑھے شخص کا آپ پر حق بھی ہے اور آپکا فرض بھی ہے۔