اہل غزہ ہم شرمندہ ہیں

عبدالرزاق باجوہ
اسلام ہمیشہ سے امن و اخوت، عدل وانصاف کا علم بردار اور جسد واحد کی مانند ہے۔اس کی واحدانیت اسی صورت برقرار رہ سکتی ہے، جب دنیا بھر کے مسلمان اس کی حفاظت میں لگ جائیں کہ کوئی دوسرا نقصان نہ پہنچا سکے۔جس طرح انسان کو اپنے جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو تو سر سے پاؤں تک پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔ہوش وحواس میں اضطرابی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ متاثرہ حصے کو آرام و سکون میں لانے کے لئے جسم کا ہر حصہ، عضو اور حواس اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔جب تک تکلیف دور نہ ہوجائے پورا جسم بے چین رہتا ہے۔افسوس کہ آج اسلام کا جسد واحد زخموں سے چور چور ہے۔کہیں کشمیر میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنائی جارہی ہے تو کہیں فلسطین میں امت مسلمہ کی بیٹیوں اور نومولود بچوں کو خون میں نہلایا جارہا ہے۔
صیہونی افواج فلسطینی مظلوم مسلمانوں پر، گھروں تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں پر اندھا دھند بم باری اور فائرنگ کر کے مسلمانوں کی نسل ہی ختم کرنا چاہتی ہیں۔آج شیطان اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ غزہ میں مسلمانوں کا نام ونشاں تک مٹانے کے لئے میدان میں آچکا ہے۔شیطان کے چیلے، یہود وہنود اپنی چالوں سے امت مسلمہ کے حکمرانوں کو خوف اور لالچ کے شکنجے میں جکڑ رہے ہیں۔مسلمان بھی دجالی فتنہ کا شکار ہوکر اپنے ہی جسد واحد کو تماشائی بن کر لہولہان ہوتا دیکھ رہے ہیں۔اسلام کے دعویدار اور پیارے محبوب ﷺ سے عشق کے پرستار تو دنیا میں کروڑوں ہیں، جو پیارے رسول ﷺکی شان کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گورا نہیں کرتے۔افسوس کہ وہ دنیا کے وسائل رکھنے کے باوجود غزہ میں اسلام کی بیٹوں، بچوں مظلوموں کی بے بسی پر خاموش کیوں ہیں؟ ہڈیوں سے گوشت تو اتر سکتا ہے مگر دل سے نبی کریم ﷺ کی محبت نہیں۔ اس اٹل حقیقت کو آج غزہ کے بچوں بوڑھوں جوانوں اور مردوزن نے سچ ثابت کردیا ہے۔ سوائے غزہ کے باقی دنیا سے تو شاید انسانیت ہی ناپید ہو کر رہ گئی ہے۔ آج دنیا محض تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے۔
غزہ کے ہسپتالوں میں آئی سی یو اور انکوبیٹرز بم باری سے تباہ ہونے سے زخمی اور نومولود بچے جان کی بازی ہار گئے۔غزہ کے ہسپتالوں میں علاج معالجہ اور بنیادی ضروریات زندگی کی دوائیں اور سہولیات کی فراہمی بند ہو رہی ہے۔ایمرجنسی میں آنے والے زخمی بے بسی کی حالت میں اللہ کو پیارے ہورہے ہیں۔اب تک ہزاروں لوگ شہید، ہزاروں زخمی، ہزاروں بے گھر ہوچکے ہیں اور لاکھوں اللہ سے غیبی مدد کے طلب گار میدان جہاد میں باطل اور طاغوت کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
ایک فلسطینی بچے سے پوچھا گیا کہ بڑے ہو کر کیا بنو گے تو جواب آیا کہ ہم بڑے نہیں ہوتے، بڑا ہونے سے پہلے ہی صیہونی فوجی شہید کردیتے ہیں۔ آج دنیا دیکھ رہی ہے غزہ میں خون اور بارود کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ فلسطین، غزہ میں تڑپتے لاشوں کا خون اور نہتے معصوموں کی آہیں ضرور رنگ لائیں گی ان شاء اللہ۔
اس سے پہلے شاید ابھی صیہونی طاقتوں کا غرور باقی ہے۔ شاید ابھی ماؤں کے جگر گوشے باقی اور صیہونی گدھ کا شکار باقی ہے۔ شاید ابھی تین سو تیرہ کا امکان باقی ہے۔ شاید ابھی معاذ باقی اور معوذ باقی ہے۔ شاید ابھی بدر کا مقام باقی ہے۔ شاید ابھی امت مسلمہ کا امتحان باقی ہے۔ شاید ابھی غیبی مدد آنے میں کچھ دیر باقی ہے۔ شاید ابھی اسلام کے دعویداروں کی آزمائش باقی ہے۔ شاید ابھی منافق اور غدار باقی ہے۔ شاید ابھی انسانیت اور حیوانیت کی پہچان باقی ہے۔ شاید ابھی کھرے اور کھوٹے کی تفریق باقی ہے۔ شاید ابھی ظلم کی انتہا باقی ہے۔ شاید ابھی مظلوم کی آہ و پکار باقی ہے۔ اہل غزہ تم عظیم ہو، تم نے اپنا سب کچھ قربان کرکے بھی اسلام کا پرچم سربلند کیا۔ جس پر اللہ کرے ناز وہ انسان ہو تم۔ اہل غزہ تمہارا مقصد عظیم ہے، تم نے اللہ کے پیارے محبوب ﷺکی محبت میں سب کچھ لٹا کر سب کچھ پالیا لیکن باطل کے سامنے جھکے نہیں۔ تم نے ثابت کردیا کہ اللہ کے سامنے جھکنے والے کبھی باطل سے نہیں جھکائے جاسکتے۔ بقول شاعر
اے دست جفا سر ہیں یہ ارباب وفا کے
کٹ جائیں تو کٹ جائیں جھکائے نہیں جاتے
نبی کریم ﷺ کی پیشین گوئی آج سچ ثابت ہورہی ہے، دو ارب مسلمانوں کی موجودگی میں صرف ایک کروڑ یہودی غزہ کے نہتے مسلمانوں پر ایسے ٹوٹ پڑے ہیں جیسے بھوکا دستر خوان پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہی ایمان کی کمزوری ہے۔ جب مسلمان اللہ کو چھوڑ کر غیروں کے سامنے سربسجود ہوجائیں تو پھر نہ ان کا تن رہتا ہے نہ من۔ اسی وجہ سے آج مسلمان ہوس، لالچ اور مادہ پرستی کا شکار ہوچکے ہیں۔ امت مسلمہ کے حکمران غیروں کے دم چھلہ بن چکے ہیں۔ آج اسلامی ممالک کے نیم مردہ حکمران غزہ پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر اس قدر خاموش ہیں کہ مذمت بھی نہیں کرسکتے۔
سینیٹر مشتاق احمد خان خراج تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے سینیٹ آف پاکستان میں صیہونی ظلم وجبر کے خلاف مظلوم فلسطینیوں اور غزہ کے معصوموں کی حمایت کا برملا اعلان کیا۔ پاکستان سے بے گھر فلسطینیوں کے لئے امدادی اشیاء لے کر مصر سے غزہ کنارے پہنچ گئے۔ الخدمت فاونڈیشن پاکستان اپنے تجربہ کار ڈاکٹروں اور رضاکاروں کے ساتھ زخمیوں کے علاج معالجہ اور بنیادی ضروریات زندگی کی چیزوں کی فراہمی کے لیے موجود ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی حماس اور فلسطینی قیادت سے ملاقات خوش آئند ہے۔ ملک پاکستان میں غزہ مارچ، جلسے، جلوس اور ریلیاں منعقد کیں اور ہر قسم کی امداد اور تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ اگر وہ پاکستان کے حکمران ہوتے تو اپنے مظلوم فلسطینی مسلمان بھائیوں کی عملی مدد کے لئے میدان جنگ میں کسی قربانی سے دریغ نہ کرتے۔ تحریک لبیک اور دیگر تنظیموں نے بھی مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور تب تک جاری رہنا چاہیے جب تک اسرائیل مکمّل طور پر فلسطینی علاقوں سے نکل نہیں جاتا۔ غزہ مارچ اور مظاہروں میں مظلوموں کی حمایت کا مقصد دنیا کو باور کروانا ہے کہ اسرائیل کو ظلم و بربریت سے روکا جائے اور فلسطین پر ناجائز قبضہ ختم کیا جائے۔ مسلمان ممالک سمیت پوری دنیا کو بحیثیت انسان اسرائیل اور اسرائیلی مظالم کی حمایت کرنے والے سب ممالک اور اداروں کا ہر لحاظ سے مکمّل بائیکاٹ کرنا چاہیے۔
اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی قیادت اور مسلم حکمرانوں کو چاہیے کہ دنیاوی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر امت مسلمہ کو جسد واحد سمجھ کر فلسطینیوں کی امداد کا اعلان کریں اور ناجائز قابض صیہونی افواج کو غزہ سے نکالنے کے لئے عملی اقدامات کا اعلان کریں۔ فلسطین کے ہمسایہ ممالک انسانی جذبے کے تحت غزہ کے مسلمانوں کی عملی مدد اور ضروریات زندگی کی اشیاء کا اہتمام کریں۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں، اقوام متحدہ کے ادارے فلسطین سے اسرائیلی غاصب صیہونی افواج کے انخلا اور مکمّل جنگ بندی کے لیے کردار ادا کریں،تاکہ فلسطینی عوام آزادانہ زندگی گزار سکیں۔