آئی ایم ایف اور حکمرانوں کی مراعات!

محمدانور گریوال
قوم خوشخبری پاتے ہی سڑکوں پر نکل آتی، نعرے لگتے، آتش بازی ہوتی، منچلے ”پاں پاں“ والے باجے بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے، کچھ ون ویلنگ کرتے ہوئے سڑکوں کی رونق بڑھاتے۔ مگر کیا کیجئے کہ اوّل تو مہنگائی نے کہیں کا نہیں چھوڑا، دوم یہ کہ عوام ابھی اپنے سیاسی رہنماؤں کا مُوڈ دیکھ رہے ہیں کہ کرنا کیا ہے؟ سوم یہ کہ موجودہ حکومت سیاسی نہیں، عبوری ہے، اِس کو نہ تو کارکن میسر ہیں اور نہ ہی کوئی اس کا حامی ہے۔ اِس لئے قوم سرکاری خوشی میں صحیح معنوں میں شامل ہونے سے لاتعلق رہی ہے۔ خوشخبری یہ تھی حکومت کے آئی ایم ایف سے مذاکرت کامیاب ہو گئے ہیں، بتایا گیا ہے کہ معاہدے کے لئے ضروری تمام اہداف حاصل کر لئے گئے ہیں۔ بجلی اور گیس وغیرہ کی قیمتیں بروقت ایڈجسٹ کر لی گئی تھیں۔ مالیاتی خسارہ پر قابو پانے کے لئے حکومت کو ابھی مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان اخراجات اور سرکاری اداروں کے نقصان میں کمی کرے گا، اور اِس سب کچھ کے نتیجے میں حکومتِ پاکستان کو 70کروڑ ڈالر ملیں گے۔
اب آنے والے چند ماہ میں زیادہ نہیں، بس چند ایسے اقدامات کرنے پڑیں گے، جس سے آئی ایم ایف مکمل راضی ہو جائے گا۔ حکومت کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں، پٹرول کی قیمت میں سولہ نومبر کو جس قدر کمی کی گئی ہے، اِس سے پوری قوم انگشت بدنداں ہے، وہ حیران ہیں کہ ہنسیں یا پھر روئیں۔ مہینے کے اختتام پر جب پٹرول کی قیمتوں میں ردّ و بدل ہو گا، تو دس بیس روپے قیمت بڑھنے پر کسی کو پریشانی نہیں ہوگی، کیونکہ ایسے مواقع پر قوم کسی بھی سانحے کے لئے تیار رہتی ہے۔ مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لئے ”مزید اقدامات“ کا آئی ایم ایف سے معاہدہ پورا کرنے کے یہی مواقع ہوتے ہیں۔ نئے ٹیکس ہوں یا کسی اور جنس کی قیمت میں اضافے کا پروگرام، اِس کے لئے نہ تو کسی آئینی ترمیم کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی یہ کام کسی خاص موسم کا محتاج ہوتا ہے، بہار ہو کہ برسات، اِس کام کے لئے ہر موسم ہی ساز گار ہے۔
اِس خوشخبری کی ابھی روشنائی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ اگلے ہی روز ایک اور خوشخبری نے آ لیا۔ خسارے کم کرنے کے لئے ”مزید اقدامات“ کے بارے میں عوام تو ابھی اندازہ لگانا شروع بھی نہیں ہوئے تھے کہ آخر کون کون سے عوامل و عناصر ہیں، جہاں حکومت قیمتوں میں اضافہ کرے گی، کہ عوام کا مسئلہ آسان کرتے ہوئے اُسے بتایا گیا کہ جنوری میں بجلی کی قیمت میں اضافہ کر دیا جائے گا۔ ویسے تو ہر چند روز بعد یہ اضافہ ہوتا رہتا ہے، مگر اب چونکہ اعلان ہو گیا ہے، اِس لئے یہ اضافہ یقینا کافی ”معقول“ ہو گا۔ حکومت کے اِس اعلان کے بعد آئی ایم ایف نے یقینا اظہارِ اطمینان کر دیا ہوگا، ہو سکتا ہے کہ وزیرِ خزانہ کو تعریفی سرٹیفیکیٹ بھی دے دیا جائے۔ یہاں ضمنی طور پر یہ بات واضح رہے کہ موجودہ یعنی عبوری حکومت کے ارکان نے اپنے اثاثہ جات کا اعلان کیا ہے، اِس اعلان میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اپنی وزیرِ خزانہ ہی سب سے امیرہیں، اُن کے اثاثے تین ارب کے قریب ہیں، یہ تو بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ پرانے پاکستانی کرنسی نوٹوں پر شمشاد اختر والے دستخط انہی محترمہ کے ہیں۔
قوم نے حکومت کے اِس کارنامے پر خوشی کا بہت زیادہ اظہار اس لئے بھی نہیں کیا کہ ڈالروں کی اِس برسات میں عوام کا کوئی حصہ نہیں، وہ جانتے ہیں کہ اُن کے مقدر میں مہنگائی میں اضافہ ہی ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے قرضے حکمرانوں کی عیاشیوں کے لئے ہوتے ہیں۔ یہاں البتہ عوام پریشان ضرور ہیں کہ آئی ایم ایف اپنے قرض کی واپسی کا بندوبست کرنے کے لئے ٹیکسوں اور دیگر حکومتی اقدامات کا نہ صرف جائزہ لیتا ہے بلکہ قرضوں کی واپسی کو یقینی بناتا ہے،تاکہ اُس کی رقم ڈوبنے نہ پائے۔ مگر عوامی حیرت یہ ہے کہ آئی ایم ایف ہمارے حکمرانوں کی عیاشی کو روکنے کے لئے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھاتا؟ حکومت کو کیوں منع نہیں کرتا کہ آپ اپنے اخرجات کم کریں؟ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بہت سے پاکستانی اداروں کے سربراہوں کی تنخواہ آئی ایم ایف کے افسران سے بھی زیادہ ہوتی ہے، یہ انوکھے بھکاری ہیں۔
ایک طرف بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، جس کی بنا پر مہنگائی تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے آسمان سے باتیں کر رہی ہے،بتایا جا رہا ہے کہ ملک ڈیفالٹ کر رہا تھا، بہت ہی مشکلوں سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے، مگر حکمرانوں اور بیوروکریسی وغیرہ کو دیکھئے کہ اگر کسی کو سیکڑوں لیٹر پٹرول ماہانہ ملتا ہے، یا ہزاروں یونٹ بجلی مفت ملتی ہے، یا دیگر مراعات بھی لاکھوں روپے کی ہیں، تو مجال ہے کہ کسی مقتدر ہستی نے اپنے اخراجات میں ایک روپے کی بھی کمی کا اعلان کیا ہو۔ جو کچھ سرکار کے خزانے سے آرہا ہے، وہ ہر صورت میں کشید کیا جائے گا۔ گزشتہ دنوں ایک سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے غریب خانے پر سولر لگا لینے کے بدلے میں دو ہزار یونٹ بجلی کی قیمت طلب کر لی۔ شاید دس لاکھ کی پنشن اور دیگر مراعات سے گھر نہیں چلتا، حکومت کو غور کرنا چاہیے۔ یہ عجوبہ بھی یہاں کارفرما ہے کہ تیس سے پچاس ہزار روپے تنخواہ لینے والا اپنا پٹرول جلائے گا، اپنا بل خود ادا کرے گا، مگر لاکھوں روپے تنخواہ اور مراعات لینے والے پٹرول، فون، گیس اور بجلی مفت ہی استعمال کریں گے۔
آئی ایم ایف گردن پر انگوٹھا رکھ کر عوام سے وصولیوں کا حکم دیتا ہے، حکمرانوں کی عیاشیوں میں کمی کا کیوں نہیں کہتا؟ آئی ایم ایف کے اس رویّے کو کیا کہا جائے؟ جس کے منہ کو لگی ہے، اُس کا بھی اپنے ملک اور عوام کے ساتھ اخلاص ملاحظہ کیجئے! حکمران جانتے ہیں کہ موجودہ حالات میں بہت سے لوگوں کی آمدن سے زیادہ بجلی کے بل آرہے ہیں، یا وہ قرضہ لینے پر مجبور ہیں یا کوئی چیز فروخت کرکے بل ادا کئے جارہے ہیں۔ اگر حکمران مخلص ہوتے تو ایک طرف اپنی اور بیوروکریسی کی عیاشیوں میں واضح کمی کرتے اور دوسری طرف ملک کے اندر زراعت، سیاحت، معدنیات، صنعت اور برآمدات کے فروغ کی فکر کرتے۔ حکمران اور افسر شاہی کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس میں انہیں اپنی حیثیت کے مطابق کمیشن یا رشوت دکھائی نہ دیتی ہو۔ ہم آئی ایم ایف کا رونا کیا روئیں، کہ پاکستان کی مقتدرقوتیں ہی ملکی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتی ہیں اور خوش ہیں کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں، ظاہر ہے خوش وہی ہو گا جس نے وہ قرض ہڑپ کرنا ہے۔