جنرل عاصم منیر سے جید علما و مشائخ کی ملاقات

پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ بغیر کسی مذہبی، صوبائی، قبائلی، لسانی، نسلی، فرقہ وارانہ یا کسی اور امتیاز کے پاکستان تمام پاکستانیوں کا ہے۔ ریاست کے سوا کسی بھی ادارے یا گروہ کی طرف سے طاقت کا استعمال اور مسلح کارروائی ناقابل قبول ہے۔ آرمی چیف نے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے ذریعے پھیلائے جانے والے گمراہ کن پروپیگنڈے کے خاتمے کے لئے مذہبی علماء کے فتویٰ ”پیغام پاکستان“ کو سراہا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق جمعہ کو تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام و مشائخ نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر،نشانِ امتیاز (ملٹری) سے جنرل ہیڈ کوارٹرز، راولپنڈی میں ملاقات کی اور متفقہ طور پر انتہا پسندی، دہشت گردی اور فرقہ واریت کی مذمت کی۔ علمائے کرام و مشائخ نے ملک میں رواداری، امن اور استحکام لانے کے لیے ریاستی اور سکیورٹی فورسز کی انتھک کوششوں کے لئے اپنی بھرپور حمایت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ فورم نے متفقہ طور پر حکومت پاکستان کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی وطن واپسی، ایک دستاویزی نظام (پاسپورٹ) کے نفاذ، انسداد سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی اور بجلی چوری کے خلاف اقدامات کی حمایت کی۔ فورم نے افغان سرزمین سے پیدا ہونے والی دہشت گردی پر پاکستان کے موقف اور تحفظات کی مکمل حمایت کی۔ فورم نے پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے افغانستان پر سنجیدہ اقدامات کرنے پر زور دیا۔ فورم نے غزہ میں جاری جنگ اور غزہ کے نہتے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بھی غم و غصے کا اظہار کیا اور انہیں انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے جید علمائے کرام اور مشائخ کے سامنے عصر حاضر میں وطن عزیز کو داخلی لحاظ سے درپیش مسائل اور ملک پاکستان کا مفاد سامنے رکھا اور بلاشبہ ”پیغام پاکستان“ میں بھی بڑے واضح طورپر ملک و قوم کے باوقار مفاد اور شرپسندی کے قلع قمع میں واضح تفریق بتائی گئی ہے۔ اِس میں قطعی دو رائے نہیں کہ انتہائی پسندی ہر معاشرے میں پائی جاتی ہے مگر بروقت سدباب کرکے انتہائی پسندی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف قوم کا بیانیہ ایک اورپوری قوم متفق ہے۔ کچھ سال پہلے سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچوں نے ہماری آنکھیں کھول کر ہمیں اُن حالات سے آگاہ کیا تھا جن کا ہمیں سامنا تھا لیکن ہم شاید اُس کی سنگینی محسوس نہیں کررہے تھے، وہ معصوم شہدا اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے قوم کے باقی بچوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچا گئے لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنے میں ہم نے بہت سی جگہوں پر کوتاہی کا مظاہرہ کیا اور کبھی صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں کوتاہی محسوس کی جاتی رہی ہے۔ بہرکیف ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ہماری اجتماعی کوتاہیوں اور چھوٹے چھوٹے مفادات نے وطن عزیز کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا ہے، اسی لئے ایک کے بعد ایک سنگین خطرہ ہمارے سامنے آتا ہے، ہر جگہ پاک فوج اور سکیورٹی فورسز کو جانیں قربان کرنے کے لئے پیش کرنا کوئی حل نہیں، ہمیں اپنے سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے، اقوام عالم کی ترقی اور معیارات کا موازنہ کریں تو ہم کہیں دور بلکہ نیچے نظر ہی اسی لئے آتے ہیں کہ ہمیں درپیش چیلنجز بھی بڑے ہیں اور ان سے نمٹنے کے لئے بطور قوم ہماری کوتاہیاں بھی بڑی ہیں۔ بہرکیف وطن عزیز کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ پوری قوم متفق ہے کہ اِس عفریت سے بہرصورت نجات حاصل کرنی ہے، جو ہمارے اندر ہی موجود ہے اور کسی نہ کسی طریقے سے اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اسی لئے ہمہ وقت پوری قوم افواج پاکستان کے شانہ بشانہ اِس عظیم مقصد کے لیے متحد و متفق ہے۔ اگرچہ اس سمت میں پیش رفت جاری ہے مگر تاحال شاید اس بابت اطمینان بخش نتائج حاصل نہیں ہو سکے اور کوئی نہ کوئی ایسا افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے جو نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل نہ ہونے کا اشارہ ہوتا ہے۔فرقہ واریت اور دہشت گردی وطن عزیز اور ہر پاکستانی کے لئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا ارباب اختیار کو اِن تمام معاملات کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔پاک فوج اور سکیورٹی اداروں نے تو نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کرکے اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کردی ہے اور آج بھی سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کی تاک میں ہیں مگر سیاسی قیادت کو بھی اپنے حصے کا کام بغیر کسی توقف اور مصلحت کے فوری کرنا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وطن عزیز کی سیاسی و عسکری قیادت ایک بار پھر نیشنل ایکشن پلان کابغور جائزہ لے اور جن نکات پر عمل درآمد نہیں ہوسکا اِن پر فوری اور من و عن عمل درآمد کرایا جائے، اگر عمل درآمد میں کہیں رکاوٹیں آرہی ہیں تو ان کو فوری طور پر دور کیا جاناچاہیے۔