ٹریفک پولیس اور بگڑی قوم کا حل
عامر رانا
جن ممالک میں اپنے قوانین کی پاسداری اولین ترجیح ہے،وہاں امن و امان کا بول بالا ہوتا ہے۔دیکھا جائے تو وہی ملت ترقی خوشحالی اور باادب نوجوان پیدا کرکے اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں، مگر بد قسمتی سے ملک پاکستان ہی وہ واحد ملک ہو گا جہاں قانون شکنی کو اپنا پسندیدہ مشغلہ تصور کیا جاتا ہے اور اس کی مثال ہم اپنے ٹریفک قوانین کو دیکھ کر ہی لگا سکتے ہیں ٹریفک سگنل ہونے کے باوجود ہمیں ٹریفک وارڈنز کھڑے کرنے کی انتہائی ضرورت پیش آتی ہے ہم نے ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ حاصل کیا، ٹریفک سگنل کے خلاف ورزی کرکے فرار ہونے والے شہریوں کو کمپیوٹرائزڈ جرمانے کرکے عوام کی دہلیز تک پہنچائے تاکہ عوام کے گھروں تک پہنچ کر انہیں شرمندہ کیا جائے کہ آپ نے قانون کی پاسداری نہیں کی مگر قوم ہے کہ سمجھنے اور سلجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی سڑکوں پر موٹر سائیکل سوار کو اپنی ہی حفاظت کے لیے ہیلمٹ پہننے کا قانون کی پاسداری کے لئے سالوں قبل بنانے گئے قوانین بارے آگاہ کیا کہ موٹر بائیک پر ہیلمٹ سوار کی حفاظت کے لئے ضروری ہے مگر بحیثیت قوم پڑھے لکھے اور ان پڑھ کا جواب انتہائی گھٹیا ہوتا ہے کہ ہمیں کیا ہونا ہے اور ہماری حفاظت کے لئے کیا ہیلمٹ ہی ضروری ہے مجبوراً قانون کو حرکت میں آنا پڑا،مطلب ڈنڈے کے زور پر قانون پر عمل پیرا کرانے کے لئے ریاست نے سختی کو اولین ہتھیار اپنایا اور چالان کی قیمت بڑھا دی دو سو کا چالان دو ہزار کر دیا اسی طرح دیگر ٹریفک قوانین پر چالان ٹکٹ کی مد میں بھاری جرمانے کرنے شروع کر دیئے جو ایک درست اقدام ہے کیونکہ لوگ کچھ مرضی کہیں کہ ٹریفک پولیس اپنے بجٹ کو پورا کر رہی مگر یہ قوم ہے ہی اس لائق۔
اب آتے ہیں ٹریفک رولز میں شامل ون وے پر جو ٹریفک حادثات اور بندش کی اہم وجہ ہے، موٹر سائیکل اور کار سوار اس خلاف ورزی کو محض اپنے چھوٹے سے یوٹرن کے سفر سے بچنے کے لئے کسی بھی سڑک پر چل پڑتے ہیں مگر وہ چھوٹا سا یوٹرن کا سفر بچانے کے لئے نہ صرف گھنٹوں ٹریفک بندش کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے بلکہ کئی قیمتی جانیں بھی ضائع ہو چکی ہیں اگر اس پر سختی سے عمل درآمد نہ ہوا تو مزید جانیں جاتی رہیں گی اس اقدام پر ڈی آئی جی آپریشنز لاہور سید علی ناصر رضوی اور سی ٹی او (چیف ٹریفک آفیسر)کیپٹن ریٹارئرڈ مستنصر فیروز کے اقدامات کو سراہا جانا ضروری ہے، ون وے کے خلاف ورزی کرنے والے کار سوار یا موٹر سائیکل سوار یا کوئی بھی سواری کو پکڑ کر مقامی تھانے میں بند کرکے لاوارث وہیکلز ایکٹ کے تحت 550کی رپٹ برائے لاوارث قرار دے کر قبضہ پولیس لے لیا جاتا۔ ون وے کے حوالے سے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور نے انتہائی سختی سے عمل درآمد کرنے کے حوالے سے ایک آڈیو پیغام نشر کیااور تمام افسران کو ٹریفک پولیس کی مدد اور ون وے کے خلاف ورزی کرنے والوں کی سواریوں کو قبضہ پولیس لینے کا حکم دیتے ہوئے روزانہ ناکہ بندی اور بیٹ آفیسر محافظ اہلکاروں کو پابند کر دیا کہ جب جہاں جیسے ون وے کے خلاف ورزی کرتے دیکھیں بند کر دیں اور کوئی سفارش قابل قبول نہ لی جائے،ابھی یہ آپریشن جاری ہے روزانہ سینکڑوں موٹر سائیکل گاڑیاں رکشے بند ہو رہے ہیں اگر یہ مہم جاری رہی تو یقینا بہتری ہو گی۔
اب بات کرتے ہیں ٹریفک رولز کے شیڈول بغیر لائسنس وہیکلز چلانے کی، اس میں تاحال بھی لاکھوں افراد ڈرائیونگ لائسنس نہیں رکھتے اور ان میں قریباً زیادہ افراد ٹریفک رولز سے آگاہ ہی نہیں، جو بھی ٹریفک حادثات کا باعث بنتے ہیں اب تو یہاں تک کہ کم عمر لڑکے لڑکیاں سواریاں لے کر گلی محلوں سے نکل کر اہم شاہراؤں تک آجاتے ہیں اور کسی نہ کسی حادثے کا سبب بن جاتے ہیں،چندروز قبل ڈیفنس میں نوعمر لڑکے کی کار سے تیز رفتاری اور مبینہ بوکھلاہٹ کے باعث خوفناک حادثہ میں 6قیمتی جانیں ضائع ہوئیں سوچئے اس گھر میں کیا قیامت برپا ہوئی ہو گی مگر اس عوام کو کون سمجھائے کب سدھرے گی،یہ انتہائی افسوس اور بے حسی کا مقام ہے کہ ہم اپنے ملک میں قوانین کی پاسداری کرنے کو تیار نہیں اور نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یورپ کی بہرحال اس ٹریفک قانون پر سخت سے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے جس پر شاید پہلی بار کسی نے سنجیدہ ہو کر عمل درآمد کرنے کا علم اٹھایا ہے اور وہ بھی چیف ٹریفک آفیسر(سی ٹی او) لاہور کیپٹن ریٹائرڈ مستنصر فیروز کی جانب سے کہ کم عمر ڈرائیور وہ چاہے کار سوار ہو چاہے موٹر سائیکل سوار یا کسی بھی کمرشل وہیکلز پر اگر وہ روڈ پر آئے تو اس کے خلاف اندراج مقدمہ کرکے غفلت لاپرواہی سمیت روڈ بلاک جیسے دفعات پر ایف آئی آر درج کروا کر اس پر پاسپورٹ پر پابندی سمیت تعلیمی ادارے سے ڈگری لینے، بینک قرضہ یعنی بیرون ممالک یورپ میں موجود قوانین جیسی سزائیں دی جائیں یہ ایک اچھا اور احسن اقدام ہے۔ ریاست کو ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کرانے کے لئے تعلیمی نصاب میں قومی ترانہ کی طرح صفحہ اول پر کم از کم دو صفحات پر ٹریفک رولز اور ہدایات دینی چاہیے تاکہ بچے ابتدائی تعلیم میں ہی قوانین کی پاسداری کو سیکھ سکھیں، اگر ریاست کو اپنے مفادات عزیز ہیں تو سب سے پہلے اس قوم کو ٹریفک رولز پر عمل درآمد کرانے کی کوشش کی جائے جس سے ڈسپلن قائم ہو سکتا ہے۔ نئی سڑکوں اور انڈر پاس اور ہیڈ برج تب ہی ہماری ضرورت پوری کر سکیں گے جب ٹریفک رولز پر عمل ہو گا اور اسی طرح اگر ٹریفک پولیس اپنی عوام کے لئے سنجیدہ ہو گئی ہے تو مہربانی کرے کہ تجاوزات کے خلاف بھی موثر اقدامات کرکے سڑکوں پر قابض دکانداروں کی اجارہ داری ختم کرے سو سو فٹ کی سڑکیں تجاوزات کے باعث چالیس فٹ کی ہو کر ٹریفک کی روانی کو متاثر کرتی ہیں سی ٹی او لاہور کیپٹن ریٹائرڈ مستنصر فیروز کسی روز دعوت دیں رات کے اوقات میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ کو اندرون شہر کی سڑکوں پر انہیں دکھائیں کہ سڑکوں کی چوڑائی رات کو کیا ہوتی ہے اوردن میں کیا رہ جاتی ہے تاکہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو آگاہ کریں کہ انڈر پاس اور اوور ہیڈ برج سے اہم تجاوزات مافیا ہے جو میٹروپولیٹن کی ملی بھگت سے سڑکوں پر قابض ہے جو ٹریفک بندش کا باعث ہیں جہاں ریڑھی بانوں اور پکے کھوکھوں کے ساتھ غیر قانونی پارکنگ اسٹینڈ ٹریفک پولیس کے لئے سب سے زیادہ مسائل کی وجہ ہیں، ضرورت تو اس امر کی ہے کہ اب جہاں سیاسی سوچ وچار سے نکل کر ملک کی بچی ہوئی عزت کا مزید جنازہ نکالنے کی بجائے ہمیں سسٹم کو بہتر کرکے اس قوم کو قوانین کی پاسداری کے دھارے میں لانے کا عمل کرنا ہو گا۔ پولیس اور دیگر ادارے جہاں عام شہری کے لئے ڈنڈا اٹھائے ہوئے ہیں انہیں اشرافیہ کے خلاف بھی ایسا ہی عمل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ انسانی فطرت ہے۔ جب بگڑے طاقت ور پر ڈنڈا چلے گا تو اس کو دیکھ کر کمزور خود بخود سدھر جائے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اور آئی جی پنجاب پولیس صوبائی دارالحکومت کی ٹریفک پولیس کی ہمت بن کر تجاوزات اور کم عمر ڈرائیور کے خلاف مہم کا حصہ بن کر کیپٹن ریٹائرڈ مستنصر فیروز کو کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے ہفتہ میں ایک روز چند گھنٹے سڑکوں کا سروے کریں اور اپنے ماتحت وارڈنز کی حوصلہ افزائی کرکے انہیں یقین دلائیں کہ آپ ان کے ساتھ سڑک پر کھڑے ہیں اور کسی طاقت ور کو ٹریفک قوانین توڑنے پر سخت کارروائی آئی جی پنجاب پولیس کی کاروائی قرار دیں تاکہ وارڈنز بغیر دباؤ اور محکمانہ سرزنش بھی بچ سکیں۔