اج فیر پھسلنا پئے گا؟

محمد انور گریوال
گزشتہ روزاُدھر چائے کے لیے انعام کا فون آیا، اِدھر نہایت شائستگی کے ساتھ فون کی انکوائری شروع ہو گئی،”کس کا فون تھا؟“ ایک سادہ اور بھولے مجرم کی طرح اپنے جُرم کا اعتراف کیا تو انکوائری آہستہ آہستہ تقریر میں تبدیل ہو گئی اور شائستگی کی جگہ کرختگی نے لے لی۔”ہر روز ہی گھنٹوں چائے پر لگا دیتے ہیں، نہ جانے چائے کا یہ کون سا وقت ہے؟ اگر کھانے کے وقت پر واپس نہ آئے تو۔۔۔“ اور بھی نہ جانے کیا کچھ کہا گیا، اپنی عادت یہی ہے کہ خاموشی کو بہترین ہتھیار تصور کر کے بیٹھے رہتے ہیں، کیونکہ یہ کوئی ایک دو دنوں کی کہانی نہیں، ہفتہ بھر میں چار پانچ بار یہ حادثہ پیش آتا ہے۔ خاموش بیٹھنے کے ساتھ ساتھ دوسری کوشش یہی ہوتی ہے کہ بات کو ایک کان سے سنیں اور دوسرے سے نکال باہر کریں، شاید اللہ میاں نے دو کان اسی لیے بنائے ہیں۔ غور سے بات نہ سننے کے باوجود بھی بہت سے اقوال ِزرّیں ایسے ہیں تو زبانی یاد ہو چکے ہیں۔ پوری یکطرفہ کارروائی کے دوران یہ ملزم (یا مجرم) خاموشی کی ڈھال کے پیچھے اپنی عافیت اور لیکچر ختم ہونے کی دعائیں مانگتا رہتاہے۔
چائے کے لیے ”ماڈل بازار“ کے چائے خانے کا انتخاب ہوا، گیٹ پر پہنچ کر موٹر سائیکل کو تالا لگاتے انعام تو اندر چلا گیا، میری نگاہ گیٹ پر لگے ایک فلیکس پر پڑی، یہ فلیکس ”پنجاب ماڈل بازارمینجمنٹ“ کی طرف سے تھا، جس کے نیچے محکمہ صنعت، تجارت و سرمایہ کاری اور تشکیلِ ہنرمندی، (حکومتِ پنجاب) کے نام لکھے تھے۔ سب سے نیچے جلی حروف میں لکھا تھا، ”مسکرائیے! ماڈل بازار تشریف لائیے“۔ میں گھر سے چونکہ دماغ سوز قسم کا لیکچر سُن کر گیا تھا، مسکرانے کا عمل میرے لیے آسان ہدف نہیں تھا، مگر کیا کیجئے کہ آخر ماڈل بازار والوں نے کہا ہے تو کچھ کرنا تو پڑے گا، آخر کچھ سوچ کر ہی انہوں نے لکھا ہوگا۔ میں نے مسکرانے کی بہت کوشش کی، مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ اسی شش و پنج میں مجھے کچھ وقت لگ گیا، میں نے دیکھا کہ اِکّا دُکا لوگ اندر جارہے ہیں، ان میں سے کوئی اِس مذکورہ فلیکس پر عمل کرتے دکھائی نہیں دیتا، اپنی باہمی گپ شپ میں کوئی مسکراتے ہوئے گزرے تو الگ بات ہے، اہتمام کے ساتھ ایسا ہوتا نظر نہ آیا۔
مجھے اندازہ نہیں کہ انعام مسکرا کر ماڈل بازار میں داخل ہوا، یا اُس نے ضروری نہیں جانا، یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اُس کی مذکورہ فلیکس پر نظر ہی نہ پڑی ہو۔ مگر وہ چونکہ قہقہہ باز دوست ہے، اس لیے مسکرا دینا اُس کے لیے کوئی مسئلہ بھی نہیں، یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ بھی میری طرح گھر سے دماغ کو ماؤف کردینے والا لیکچر سُن کر ہی آیا ہو، کہ جس کی بنا پر مسکرانے کی ہمت نہ ہو پارہی ہو۔ آخر وہاں کھڑے گارڈ سے معلوم کیا کہ بھیا کیا کہانی ہے، کچھ لوگ توایسے ہی گزرے جارہے ہیں، اُس نے اپنے قیمتی مشورے سے میرے ذہن کا بوجھ ہلکا کیا، کچھ میرا حوصلہ بڑھایا، یوں میں اندر جانے کے قابل ہوا۔
چائے کا تو بس نام ہی ہوتا ہے، چار، چھ دوست ہوتے ہیں،دنیا جہان کے معاملات پر گپ شپ ہوتی ہے، سیاست، مذہب، سماج پر ہر کوئی اپنی اپنی دانشوری جھاڑتا ہے، کچھ چغلیاں وغیرہ بھی ہو جاتی ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود کبھی کبھار کوئی کام کی بات بھی ہو جاتی ہے۔ چونکہ زیادہ باتیں فضول ہی ہوتی ہیں، انہی کو حاصلِ ملاقات تصور کیا جاتا ہے، اور کام کی باتوں کو البتہ فضولیات کے زُمرے میں رکھا جاتا ہے، اس لیے”فضولیات“ سے ہم لوگ اجتماعی طور پر پرہیز ہی کرتے ہیں۔ چائے کی گپ شپ کا دورانیہ کم از کم دو ڈھائی گھنٹے ہوتا ہے، تاہم اِس پورے وقت میں میری توجہ گھر پر ہی مرکوز رہتی ہے کہ واپس پہنچنے تک ایک اور لیکچر تیار ہو چکا ہوگا۔ اگر گھر جا کر یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ میں ماڈل بازار داخل ہونے سے قبل مسکرایا تھا، تو بھی سخت چھان بین ہوگی، مسکرانے کی وجوہات بتانا پڑیں گی اور اگرغلطی سے ماڈل بازار کی طرح گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے مسکرا دیا تو پھر جس کَڑے امتحان سے گزرنا پڑ سکتا ہے، وہ اور بھی خوفناک ہے، کہ آخر اس حادثے وجہ کیا ہے؟
میں سوچ رہا ہوں کہ آخر پنجاب بھر کے ماڈل بازاروں کی انتظامیہ کو کیا سوجھی کہ بازار آنے والوں کو مسکرانے کا کہہ دیا، یہاں یہ بھی علم نہیں ہو سکا کہ مسکرانے کا حکم ہے یا صرف مشورہ۔ جو بھی ہے عمل کرنا تو مجبوری ہے، کہ آخر اتنے محکموں کے نام لکھے گئے ہیں، اور حکومتِ پنجاب بھی اس مہم میں شامل ہے۔ کیا ماڈل بازار کے اندر کوئی ایسی خوش کن خبر پوشیدہ ہے کہ اندر جاکر گاہک خوشی سے مسکرا اٹھیں گے، یا ممکن ہے کھلکھلا کر ہنس ہی دیں، یا پھر اِس بازار میں فروخت ہونے والی چیزوں کی قیمتوں میں اتنی کمی واقع ہوگئی ہے کہ مارے خوشی کے لوگوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جائے، یا اُن کی ہنسی نکل جائے۔ یا انتظامیہ نے یہ جانا کہ لوگ چونکہ مہنگائی اور دیگر مسائل کی وجہ سے بہت پریشان رہتے ہیں، کیوں نہ اُن کے غم بھلانے کا اہتمام کیا جائے۔ مسکرانے کا یہ مشورہ نما فلیکس صرف بازار کے اندر جانے والوں کے لیے ہے، واپسی پر گاہک پر کیا بیتی، اُس کی جیب دکانداروں نے کیسے ہلکی کی، وہ مسکراتا ہوا واپس آیا یا روتا ہوا، بازار انتظامیہ کو اس سے کچھ غرض نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ فلیکس صرف دکان داروں کے لیے ہو، کہ وہ مسکراتے ہوئے نئے جوش و جذبے کے ساتھ بازار داخل ہوں اور سارا دن آنے والے گاہکوں پر خوب ہاتھ صاف کریں۔
آج پھر انعام کا فون آیا ہے، آج پھر ہم بے وقت کی چائے پینے ماڈل بازار جائیں گے، آج پھر گھر میں انکوائری کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کے بعد ستم یہ کہ جس ذہنی کیفیت کے ساتھ گھر سے جائیں گے، اُسی حالت میں بازار کے صدر دروازے پر مسکرانا بھی پڑے گا۔ اگر چائے پر حسبِ توقع زیادہ دیر ہو گئی تو حسبِ روایت گھر سے کھانا بھی نہیں ملے گا۔ مجھے سردار جی کا واقعہ یاد آگیا، جب وہ گھر سے نکلے تو کیلے کے چھلکے پر پاؤں آنے سے وہ پھسل کر گر پڑے۔ اگلے روز جب دوبارہ گھر سے باہر جانے کا وقت آیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ باہر کیلے کا ایک اور چھلکا پڑا ہوا ہے، بہت ہی مجبوری اور پریشانی میں کہتے ہیں کہ ’’اوہو! اج فیر پھسلنا پئے گا“۔