چند سیاسی مغالطے

حافظ محمد قاسم مغیرہ
وطن عزیز کی سیاست سے متعلق سب سے بڑا مغالطہ یہ ہے کہ ایک ایسی شے، جو فی نفسہ سیاست نہیں ہے، کو سیاست سمجھ لیا گیا ہے۔ ازروئے تعریف، سیاست عوام کی فلاح و بہبود کے لیے حکمران کی طرف سے کیے گئے اقدامات کا نام ہے۔ مفادات اور اقتدار کی جنگ کو سیاست کا نام دینا ایک بہت بڑا مغالطہ اور سیاست کے حقیقی مفہوم سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ جو حکمت عملی گڈ گورننس پر منتج نہیں ہوتی وہ دھوکا، فریب، قول و فعل کا تضاد اور کذب و افترا تو کہلاسکتی ہے، سیاست کہلانے کی مستحق ہرگز نہیں ہے۔
پاکستانی سیاست سے متعلق پھیلایا گیا ایک بڑا مغالطہ نظریاتی سیاست کا ہے۔ نظریاتی سیاست کی دعوے دار جماعتوں کا سب سے بڑا نظریہ محض اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ مفاد پرستی اور پست ترجیحات بھی ایک نظریہ ہے۔ ان معنوں میں تو کچھ جماعتوں کی سیاست کو نظریاتی سیاست کہا جاسکتا ہے لیکن اگر ان کے دعوؤں کی کسوٹی پر ان کے اعمال کو پرکھا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کی دعوے دار جماعتیں بھی اپنے نظریے کے برعکس عملاً مزدوروں اور کسانوں کے استحصال میں مصروف ہیں۔ جن کی سیاست وڈیروں اور جاگیر داروں کے بغیر ادھوری ہے، وڈیرا ازم اور جاگیرداری ختم کرنے کے دعوے دار ہیں۔ چند مستثنیات کے علاوہ، مذہبی جماعتوں کی اکثریت کی بھی کوئی نظریاتی سمت نہیں ہے۔
سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کا علم بردار سمجھ لینا بھی ایک بہت بڑا مغالطہ ہے۔ حقیقت حال یہ ہے سیاسی جماعتوں کا جمہوریت سے دور، دور کا بھی واسطہ نہیں۔ بلکہ یہ جماعتیں جمہوریت سے خوف زدہ ہیں۔ اس لیے طلباء یونین کی بحالی، انٹرا پارٹی الیکشن، بلدیاتی انتخابات اور اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے سے خوف زدہ ہیں مبادا متبادل قیادت سامنے آ جائے۔ سیاسی جماعتوں کی جمہوریت دشمنی ان کی ناقص پارلیمانی کارکردگی میں بھی نظر آتی ہے۔
سیاسی جماعتوں کا پھیلایا گیا ایک بڑا مغالطہ یہ بھی ہے کہ جمہوریت کے تسلسل سے ملک ترقی کرتا ہے۔ یہ ادھورا سچ ہے۔ جمہوریت کے تسلسل کے ساتھ ساتھ ترجیحات کا درست ہونا بھی ضروری ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے مسلسل پندرہ برس، پنجاب میں مسلم لیگ نون کے دس برس، خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے ساڑھے نو برس، اور وفاق میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے بالترتیب پانچ پانچ برس اور ان میں ہونے والی ترقی اس دعوے کی تردید کرتی ہے کہ محض جمہوریت کے تسلسل سے ملک ترقی کرتا ہے۔
صرف آمروں کو آئین شکن سمجھنا اور سیاست دانوں کو کلین چٹ دے دینا بھی ایک بہت بڑا مغالطہ ہے۔ آمروں کی آئین شکنی میں عدالتیں اور سیاست دان برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی برسر اقتدار آکر آئین کی بیشتر شقوں، جن کا تعلق براہ راست عام آدمی سے ہے، پر عمل نہیں کرتیں۔ اس طرح آئین شکنی کی مرتکب ہوتی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے اقتدار کو جمہوری دور سمجھ لینا بھی جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔ جمہوریت صرف سیاسی جماعتوں کے اقتدار کے نام نہیں ہے۔ اگر برسر اقتدار سیاسی جماعتوں کو ان کے رویے اور عمل کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو یہ بھی فسطائیت اور آمریت کا پرتو نظر آئیں گی۔ سیاسی جماعتوں کے دور حکومت میں بھی دھونس، دھمکی اور طاقت کا استعمال اسی طرح روا رکھا جاتا ہے جس طرح یہ مشق فوجی حکومتیں کرتی ہیں۔
کسی سیاست دان کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا مغالطہ بھی زبان زد عام ہے۔ وطن عزیز کی کوئی بھی جماعت اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے۔ تمام جماعتوں کا قبلہ و کعبہ ایک ہی ہے۔ دست شفقت سے محرومی کے بعد آہ و فغاں کرنے سے کوئی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں بن جاتا۔ جب ان مبینہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں کو دوبارہ سائبان میسر آ جائے تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ اپروچ تا حکم ثانی ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔
چند گم راہ کن اعداد و شمار اور شعبدہ بازی کو ترقی سمجھ لینا ایک بہت بڑا مغالطہ ہے۔ چند بڑے شہروں کے پوش علاقوں کی چمک دمک کا نام ترقی نہیں ہے۔ وطن عزیز کی قریباً تین چوتھائی آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔ آبادی کا یہ بڑا حصہ ترقی کے ثمرات سے محروم ہے۔
کسی سیاست دان کے بار بار کام یاب ہونے کو اس کی مقبولیت سمجھ لینا بھی ایک مغالطہ ہے۔ پاکستان میں کم و بیش پچاس فی صد ووٹرز ووٹ کاسٹ نہیں کرتے۔ بقیہ پچاس فی صد ووٹ مختلف جماعتوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ اس طرح کم و بیش پچہتر فی صد عوام کا ٹھکرایا ہوا شخص قوم پر مسلط ہوجاتا ہے۔ پچاس فی صد ووٹرز کا نظام پر عدم اعتماد ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں واقعتاً اپنی مقبولیت جانچنا چاہتی ہیں تو بیلٹ پیپر پر خالی خانہ متعارف کرائیں۔ صرف ایک الیکشن سے ہی مقبولیت کا نشہ اتر جائے گا۔
سیاست میں کچھ حتمی نہیں ہوتا ایک بہت بڑا مغالطہ ہے، جس میں سیاسی جماعتوں کے حمایتیوں کی اکثریت مبتلا ہے۔ اس مغالطے کی مقدس چادر قول و فعل کے ہر تضاد کو ڈھانپ لیتی ہے۔ ایک شخص ہزاروں کے مجمعے میں کھڑا ہوکر کسی کے احتساب کی بات کرے اور بعد میں اس سے ہاتھ ملالے تو کیا محض یہ کہہ کر کہ سیاست میں کچھ حتمی نہیں ہوتا وہ حق بجانب قرار پائے گا؟ کیا یہ اتنی سادہ بات ہے؟ کیا واقعتاً سیاست میں کچھ حتمی نہیں ہوتا؟ اگر ترجیحات درست ہوں تو سیاست میں بہت کچھ حتمی ہوتا ہے۔ گڈ گورننس، پائیدار ترقی، امن، خوش حالی، عام آدمی کی عزت نفس، آئین اور قانون کی بالادستی، میرٹ، انصاف، قوم کی یک جہتی اور معاشی ترقی سمیت بہت کچھ حتمی ہوتا ہے۔ البتہ مفادات کی سیاست میں مفاد کے علاوہ کچھ حتمی نہیں ہوتا۔ اور مفاد اتنا حتمی ہوتا ہے کہ اس پر پوری قوم کو قربان کیا جاسکتا ہے۔