’30 ہزار پاؤنڈ وزنی بم فردو جوہری پلانٹ کو تباہ کرے گا یا نہیں‘ ٹرمپ مخمصے میں مبتلا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دفاعی حکام کے ساتھ بات چیت کے دوران تجویز دی ہے کہ امریکا کو ایران پر حملہ صرف اسی صورت میں کرنا چاہیے جب ’بنکر بسٹر‘ بم سے یہ یقینی بنایا جا سکے کہ فردو میں موجود اہم یورینیم افزودگی کی تنصیب مکمل طور پر تباہ ہو جائے۔
برطانوی اخبار دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق اس بات سے واقف ذرائع نے بتایا کہ ٹرمپ کو بتایا گیا کہ جی بی یو 57 تیرہ ہزار 600 ٹن (30 ہزار پاؤنڈ) وزنی بم ہے، جسے گرانے سے فردو کو مؤثر طریقے سے ختم کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ مکمل طور پر قائل نظر نہیں آتے، اور انہوں نے حملے کی اجازت دینے سے فی الحال گریز کیا ہے، کیوں کہ وہ یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا امریکی مداخلت کی دھمکی ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے کا باعث بن سکتی ہے۔
دفاعی حکام کے مطابق جی بی یو 57 کی مؤثریت ٹرمپ کے دور حکومت کے آغاز سے ہی پینٹاگون میں شدید بحث کا موضوع رہی ہے، بعض دفاعی ماہرین کو یہ بریفنگ دی گئی ہے کہ فردو جیسی گہرائی میں موجود تنصیب کو شاید صرف ایک ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیار ہی مکمل طور پر تباہ کر سکتا ہے۔
تاہم ذرائع کے مطابق ٹرمپ فردو پر ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرنے پر غور نہیں کر رہے، اور یہ تجویز نہ تو امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹھ اور نہ ہی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ڈین کین نے وائٹ ہاؤس کی میٹنگز میں پیش کی۔
دفاعی ماہرین کو یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ عام بموں کے ذریعے، چاہے وہ جی بی یو 57 جیسے بموں کے بڑے پیکیج کا حصہ ہوں، اتنی گہرائی تک پہنچنا ممکن نہیں ہوگا، اور یہ صرف سرنگوں کو منہدم کر کے انہیں ملبے تلے دبانے تک محدود رہیں گے۔
ماہرین کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فردو کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے لیے، جو اسرائیلی انٹیلیجنس کے مطابق زمین سے 300 فٹ نیچے تک موجود ہے، پہلے روایتی بموں سے زمین کو نرم کرنا پڑے گا، اور پھر ممکنہ طور پر بی 2 بمبار طیارے سے ایک ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیار گرانا ہوگا۔
یہ جائزہ ڈیفنس تھریٹ ریڈکشن ایجنسی (ڈی ٹی آر اے) نے تیار کیا، جو امریکی محکمہ دفاع کا ایک ذیلی ادارہ ہے، جس نے جی بی یو 57 کی جانچ کی تھی، اور مختلف زیر زمین تنصیبات کے خلاف امریکی فوجی ہتھیاروں کی حدود پر نظر ثانی کی۔
یہ صو رت حال ظاہر کرتی ہے کہ اس طرح کے حملے کی نوعیت کتنی پیچیدہ ہے اور کامیابی کے لیے کیا درکار ہوگا، جی بی یو57 بم گرانے سے ایران کی ہتھیاروں کے معیار کی یورینیم حاصل کرنے کی صلاحیت کو شاید چند سال کے لیے پیچھے دھکیلا جا سکے گا، لیکن اس پروگرام کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکے گا۔
وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کے ترجمانوں نے اس پر فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
فردو کو غیر فعال بنانا (چاہے سفارتی یا فوجی طریقے سے) ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے، خاص طور پر جب کہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے وہاں 83.7 فیصد تک افزودہ یورینیم کی موجودگی کی تصدیق کی ہے جو کہ ہتھیاروں کے معیار 90 فیصد کے بہت قریب ہے۔
فردو جیسی تنصیب کو تباہ کرنے کے لیے امریکا کی شمولیت ضروری سمجھی جاتی ہے، کیونکہ اسرائیل کے پاس نہ تو ایسے گہرے اہداف کو نشانہ بنانے والے ہتھیار ہیں اور نہ ہی انہیں لے جانے والے طیارے۔
2 دفاعی حکام کے مطابق جی بی یو کے ذریعے فردو کو نشانہ بنانے میں بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ یہ تنصیب ایک پہاڑ کے اندر واقع ہے اور یہ کہ اس بم کو اس جیسی کسی حقیقی صورت حال میں پہلے کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔
ڈی ٹی آر اے کے سابق نائب ڈائریکٹر، ریٹائرڈ میجر جنرل رینڈی مینر نے جی بی یو 57 کی حدود کے بارے میں کہا کہ ’یہ ایک مرتبہ کا حملہ نہیں ہوگا‘، فردو کو جلد دوبارہ تعمیر کیا جا سکتا ہے، یہ پروگرام کو 6 ماہ سے ایک سال تک پیچھے کر سکتا ہے، یہ ٹی وی پر اچھا لگتا ہے، لیکن حقیقت نہیں ہے۔
یہ بم عام طور پر ’بنکر بسٹر‘ کہلاتا ہے، کیوں کہ یہ زیر زمین بنکروں کو تباہ کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا، لیکن اسے صرف B2 بمبار طیارہ لے جا سکتا ہے، جو فضائی بالادستی رکھتا ہو، اور اسے ہدف پر لاک کرنے کے لیے مضبوط جی پی ایس سگنل درکار ہوتا ہے۔
اگرچہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے ایران میں فضائی بالادستی حاصل کر لی ہے، لیکن ایک کامیاب حملے کے لیے جی پی ایس جیمروں اور دیگر دفاعی نظاموں کو پہلے تباہ کرنا ہوگا، اور جی بی یو 57 کو اتنی گہرائی میں داخل ہونا ہوگا کہ وہ تنصیب کو غیر مؤثر بنا سکے۔