سموگ،تعلیمی ادارے اور کاروبار زندگی

عبدالرزاق باجوہ
سموگ نے پنجاب کے مختلف اضلاع کو نومبر کے آغاز میں ہی گھمبیر صورتحال سے دوچار کردیا،جب سردی کا آغاز ہوتا ہے تو فوگ(دھند) اور سموگ(دھواں) جس میں خطرناک قسم کے ذرات مل جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں سموگ بن جاتی ہے۔سموگ سطح زمین سے لے کر اوپر چند میٹر تک کی فضا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔سموگ کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک، اور عوام کو آمدورفت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سموگ آنکھ، ناک اور کان اور گلے کو شدید متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ سانس، پھیپھڑوں اور دل کی بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ حکومت پنجاب نے گزشتہ دنوں سموگ سے متاثرہ علاقوں میں تعلیمی ادارے، دفاتر اور مارکیٹوں کو بند رکھنے کا حکم جاری کیا تاکہ قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جاسکے۔ سمارٹ لاک ڈاؤن میں انتظامیہ کے ساتھ ساتھ پولیس فورس کو ہدایات دی گئیں کہ شہریوں کے تحفظ کے لیے تمام ادارے اپنا سو فیصد کردار ادا کریں۔ پرونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی حکومت پنجاب نے قیمتی انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے سموگ کو آفت قرار دے دیا۔ پی ڈی ایم اے نے فضائی آلودگی اور سموگ کی روک تھام کے لیے عوام سے بذریعہ اشتہارات اپیل کی کہ عوام کوڑا کرکٹ، پلاسٹک، ربڑ، ٹائر اور فصلوں کی باقیات کی تلفی بذریعہ آگ ہرگز مت کریں جس کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے اور قید کی سزا کا اعلان کیا گیا۔
لاہور ڈی آئی جی آپریشنز کے حکم کے مطابق لاک ڈان میں تمام دکانیں، ریسٹورنٹ، کیفے، عام ٹرانسپورٹ ودیگر کاروبار بند رکھنے کا حکم جاری کیا گیا۔ ایس ایس پیز کی نگرانی میں 50 بڑے ناکے اور 100 چھوٹے ناکے لگا کر تمام ڈویژنل ایس پی، اے ایس پی، ڈی ایس پی اور ایس ایچ اوز کو لاک ڈاؤن پر سو فیصد عملدرآمد کروا نے کا حکم دیا گیا۔ گاڑیوں اور شناختی کارڈ کی چیکنگ کے دوران زیادہ مسافروں کی صورت گاڑی واپس بھیجنے کا حکم جاری کیا گیا کہ ایمرجنسی کے سوا کوئی گاڑی نہ چلنے پائے۔ پولیس آفیسرز اور اہلکاروں کو معمول کے برعکس صبح سے رات دس بجے دیر تک ہدایات پر عمل درآمد کروانے کا حکم دیا گیا۔ سموگ سے تنگ مخلوق کو سوشل میڈیا پر دیکھا تو ایک چیخ و پکار تھی کہ اب سموگ کو کیوں روتے ہو؟ شہروں کے چاروں طرف بیس پچیس کلو میٹر تک فصلیں درخت اور زرعی زمینیں تباہ کی جا رہی ہیں۔ باغات کی جگہ پلاٹنگ کی جارہی ہے۔ نہری پانی آلودہ کیا جارہا ہے۔ سیمنٹ،بجری، سریا سمیت بلڈنگ میٹیریل کی ہر طرف بھر مار ہے۔سرمایہ کاروں نے ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے پیسے لیے اور گاڑیوں کی بھر مار ہو تی جارہی ہے۔اب گاڑیوں اور کارخانوں سے دھواں اٹھتا ہے اور سانس بند ہوتی ہے۔ گردوں، دل اور دمے کے امراض میں اضافے سے گھبراتے کیوں ہو؟ اوسط عمر ساٹھ ستر سال سے پچاس سال تک آرہی ہے۔اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں، حکومت کے ساتھ ساتھ عوام بھی ذمہ دار ہے۔یہ درختوں کی کٹائی لکڑی کے ٹرک اور ٹرالے ریڑیاں پچھلے بیس سال سے روزانہ شہر میں مٹی دھول اور گندگی پھیلاتے داخل ہوتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
کچھ کا خیال تھا کہ تعلیمی ادارے، دفاتر اور کاروبار بند کریں یا سمال لاک ڈاؤن لگائیں یہ مستقل حل نہیں بلکہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی ہے۔ وہ درخت وہ لہلہاتے کھیت۔ وہ سرسبز و شاداب فصلیں اب تو خواب بن چکا ہے۔ کچھ کی رائے تھی کہ یہاں توسیاست کا گول چکر ہی چل رہا ہے، لوگوں کی صحت اور عوامی بھلائی کی کسی کو بھی فکر نہیں۔
پریس کلب لاہور آڈیٹوریم میں نامور مصور این سی اے کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر اعجاز انور کے اعزاز میں پروقار تقریب تھی جس میں حاضرین میں سے اکثر نے سموگ اور لاہور شہر کی بربادیوں کا رونا رویا۔ تقریب سے قبل سیکرٹری پریس کلب کے دفتر بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر اعجاز انور شہر لاہور کی ویرانی پر دکھ کا اظہار کرنے لگے کہ جو صدیوں سے مشہور بوڑھ والا چوک ہے اس میں کوئی بوڑھ کا درخت باقی نہیں رہ گیا۔ ہوس زر نے شہر لاہور کی پہچان ہی مٹادی دی ہے۔ تقریب میں مختلف مکاتب فکر کے لوگ موجود تھے جنہوں نے کہا کہ ڈاکٹر اعجاز انور نے تو زندگی بھر شہر لاہور کی خوبصورتی کو زندہ رکھنے کی ان تھک جدوجہد کی ہے، کٹتے درختوں پر لپٹ گئے، لیکن ارباب اختیار کی لاپرواہی کے نتیجے میں آج جہاں شہر لاہور کی آلودگی کے دنیا میں چرچے ہیں وہاں دودھ، گوشت، سبزی، دالیں، آٹا اور چاول سمیت ضروریات زندگی کی ہر چیز آلودہ ہے۔ پیسے کی خاطر انسان ہی انسان کی موت کا باعث بن چکا ہے۔ڈاکٹر اعجاز انور نے ارباب اختیار کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ”مجھ رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے“
سموگ کیوں نہ ہو جب باغوں کے شہر، زندہ دلوں کے شہر لاہور کو جان بوجھ کر دنیا کا آلودہ ترین شہر بنانے اور عالمی اعزاز حاصل کرنے میں حکومت کے ساتھ ساتھ عوام نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے اور یہ اعزاز نامعلوم کتنے عشروں تک برقرار رہے۔ شہر لاہور کی ہوائیں آلودہ، فضائیں آلودہ، دل آلودہ اور دماغ بھی آلودہ ہوچکے ہیں جس کے نتیجے میں شہر کے اکثر باسیوں کے رویے اور قول وفعل بھی آلودہ ہوچکے ہیں اور مثبت سوچ تو وہ اپنے قریب تک نہیں پھٹکنے دیتے۔ آج پرانی انارکلی جہاں نیچے ابلتے گٹر ہیں تو اوپر شہری بیٹھ کر ناشتے لنچ اور ڈنر کرتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ شہریوں کی خوشبو اور بدبو میں فرق کرنے والی حس بھی ختم ہو گئی ہے۔ کوئی تو ہو جو شہر لاہور کی وہی پرانی خوبصورتی، وہی رونقیں، وہی باغ وبہار، وہی خوشبو سے معطر فضائیں بحال کردے۔
سموگ کے خاتمے کے لیے محض تعلیم و تربیت کے ادارے اور کاروبار زندگی بند کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ بچوں کی تعلیم وتربیت کا سلسلہ معطل ہوکر ان کی بربادی کا باعث بنے گا، بچے بے راہ روی کا شکار ہو جائیں گے۔ دوسری طرف کاروبار زندگی معطل ہونے سے غریب محنت کش مزدور کا جینا مشکل ہوجائے گا۔ سموگ اور آلودگی سے بچاؤ کے لیے دھواں چھوڑتی گاڑیوں اور فیکٹریوں کو بند کرنا چاہیے۔ نئے درخت اور پودے لگائے جائیں۔ پہلے سے لگے پودوں کو کاٹنے کی بجائے ان کی آبیاری کی جائے۔ روزانہ کی بنیاد پر سڑکوں، پارکوں پر لگے پودوں پر پانی کا چھڑکاؤ کیا جائے۔ باغوں، پارکوں اور کھیل کے میدانوں کو آباد کیا جائے۔ تعلیمی اداروں کی طرح گلی، محلے، چوکوں، چوراہوں، بازار، سڑکوں، نہر اور گزرگاہوں کے کنارے روزانہ کی بنیاد پر صفائی کا اہتمام کیا جائے۔ کوڑا کرکٹ اور کچرے کے ڈھیر ٹھکانے لگائے جائیں۔ نکاسی آب اور سیوریج کے نظام کی اصلاح کی جائے۔ تعلیمی اداروں، مدارس اور اہم فورمز پر آگاہی مہم چلائی جائے کہ ہم آلودگی پر کیسے قابو پاسکتے ہیں۔ ہر شہری حکومت کے شانہ بشانہ آلودگی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے تاکہ سموگ اور آلودگی پیدا ہی نہ ہو اور نہ ہی تعلیمی ادارے اور کاروبار زندگی بند کرنا پڑے اورعوام سکون سے زندگی کی بہاروں سے لطف اٹھا سکیں۔