آج کے کالممحمد انور گریوال

توہینِ اقبالؒ

محمدانور گریوال
9نومبر تو پہلے بھی آتا تھا، منایا جاتاتھا، اب کے بھی یہ روایت قائم رہی۔ ایک سابق حکومت نے البتہ اس موقع پر ہونے والی قومی چھٹی بند کر دی تھی، جو بعد ازاں بحال کر دی گئی۔ گویا چھٹی بھی کسی دن کی اہمیت کے اعتراف کی علامت ہے۔ چھٹی کا دن اپنی قوم کا بہت ہی پسندیدہ دن ہوتا ہے۔ علّامہ اقبالؒ صرف قومی شاعر ہی نہیں، مسلمانوں کے سیاسی قائد بھی ہیں، تصوف کی دنیا میں انہیں بے شمار لوگ اپنا مُرشد بھی مانتے ہیں۔ یوں وطنِ عزیز کے باسیوں کی اکثریت علّامہ اقبالؒ سے محبت و عقیدت کی دعوے دار بھی ہے۔ آزادی رائے کا زمانہ ہونے کے ناطے مخالفین کی بھی کمی نہیں، اب جنہیں سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی بات کہنے کے مواقع بھی حاصل ہیں۔ کسی نے علامہ اقبالؒ کی شادیوں، معاشقوں وغیرہ کی پوسٹ لگائی تو کسی نے انہیں نواب بہاول پور کا وظیفہ خوار بھی قرار دیا۔ کسی نے ایک خط بھی جاری کر دیا جو اُنہوں نے ایک جرمن خاتون کو لکھا تھا۔ قومی شاعر اور محترم قائد ہونے کے ناطے نفرت انگیز مواد اچھا تاثر چھوڑنے میں ناکام رہا، کیونکہ اقبالؒ جس مقام پر موجود ہیں، وہاں نفرت کے زہر آلود تیروں کی پہنچ نہیں ہوتی۔
تعلیمی اداروں میں چھٹی کی وجہ سے پیشگی ہی یومِ اقبال کی تقاریب منعقد کر لی جا تی ہیں، دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ یہ کارِ خیر بہت ہی اہتمام، خوشی اور جوش و جذبے کے تحت کیا جاتا ہے۔ بہت حد تک آگاہی دی جاتی ہے۔ شہروں میں مختلف ادارے بھی یہ دن بڑے ذوق و شوق سے مناتے ہیں۔ ہمارے شہر بہاول پور میں بھی مسعود صابر یہ تقریب بہت اہتمام سے منعقد کرتے ہیں، اسلامیہ یونی ورسٹی، چیمبر آف کامرس، پنجاب آرٹس کونسل بہاول پور اور کئی دوسرے اداروں کا اُنہیں تعاون حاصل ہوتا ہے، اس سال انہوں نے آٹھ اور نو نومبر کے دو دنوں میں چار پروگرام رکھے، جن میں کلامِ اقبالؒ، افتتاحی تقریب، مذاکرہ اور آخر میں پاکستان کے بہت بڑے دانشور احمد جاویدکے ساتھ پروگرام کیا گیا، جس سے پورے شہر کی فضا میں اقبالؒ سے محبت کا ماحول پیدا ہوا۔
اقبالؒ کے مخالفوں کو قائل کرنے کی ضرورت نہیں، کہ ہر کوئی اپنا ذہن، نقطہ نگاہ اورضمیر رکھتا ہے۔ مگر اقبالؒ کی جو توہین ناداں دوست کر رہے ہیں، وہ اُنہی کا حصہ ہے۔ سوشل میڈیا پر بہاول پور کے ایک ادبی گروپ میں ”ابو زینب“نے ایسی بہت سی پوسٹوں کو یکجا کر دیا ہے جو نمایاں ادبی یا علمی شخصیات کی طرف سے جاری کی گئی تھیں۔ پڑھ کر غالب یاد آئے؛
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
قارئین کرام بھی ایسے ہی چند نمونے ملاحظہ فرمائیں اور غالب کے شعر کے مصداق وہ جس عمل پر قدرت رکھتے ہوں، کر گزریں۔ ایک صاحب ایم فل ہیں، جو اشعار انہوں نے اپنی پوسٹ میں اقبالؒ کی تصویر کے ساتھ جاری کئے ہیں، وہ شیئر ہوتے رہتے ہیں، انہوں نے تو چار شعر لکھے ہیں، مگر اپنی ہمّت ساتھ نہیں دیتی، اس لیے نمونے کے طور پر دو اشعار پیش خدمت ہیں؛
لکھنا نہیں آتا تو میری جاں پڑھا کر
ہو جائے گی تیری مشکل آساں پڑھا کر
پڑھنے کے لیے اگر تجھے کچھ نہ ملے تو
چہروں پر لکھے درد کے عنواں پڑھا کر
ایک بے وزن شعر ایک گدی نشین بزرگ کی طرف سے جاری کیا گیا ہے، جنہوں نے ایک ادبی گروپ بھی تشکیل دے رکھا ہے۔ ایک کالج کے شعبہ اردو کے سربراہ نے اپنے سٹیٹس پر ایک نظم جاری کی ہے، دو شعر پر ہی اکتفا کرتے ہیں، پڑھتے جائیں اور غالب کے شعر کو یاد کرتے جائیں؛
گونگی ہو گئی آج کچھ زباں کہتے کہتے
ہچکچا گیا خود کو مسلماں کہتے کہتے
توفیق نہ ہوئی مجھے اک وقت کی نماز کی
اور چپ ہوا موذن اذاں کہتے کہتے
کسی سکول کی پرنسپل نے بھی شکوہ اور جواب شکوہ کا ایک ایک شعر اپنے سٹیٹس پر لکھا ہے، جنہیں یہاں لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی، بہت سے نام نہاد ادب پسند لوگوں نے ایسی ہی خرافات کو کلامِ اقبالؒ قرار دے کر ساتھ تصویر لگانے میں بھی کوتاہی نہیں کی۔ اگر اقبالؒ کے مندرجہ بالا پروانوں میں سے کسی نے کبھی اقبالؒ کو پڑھا ہوتا تو ایسی بے ہودہ پوسٹیں کبھی نہ لگاتے۔ ان میں سے سب سے غیر ذمہ داری کا ثبوت تو انہوں نے دیا ہے جو ایسی پوسٹوں کے موجد ہیں، پھر رہی سہی کسر انہوں نے پوری کر دی جنہوں نے بس پوسٹ کی شکل دیکھی اور صدقہ جاریہ کے طور پر اُسے آگے روانہ کر دیا، یہ بالکل نہ سوچا کہ کچھ تحقیق کر لیتے، کچھ سوچ لیتے، ایسی محبت کو کیا کہیے جس میں عاشق اپنے معشوق کی حقیقت سے ہی واقف نہیں۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے ایک آڈیو کسی صاحب کی دستِ ہنر سے نکل کر سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے، جس پر کچھ اس قسم کے الفاظ لکھے ہیں کہ یہ آڈیو بہت سالوں کی محنت سے تلاش کی گئی ہے، جس میں کلام بزبانِ شاعر حاضر ہے، کہ اقبالؒ اپنی زبان میں کلام پڑھ رہے ہیں۔ واضح معلوم ہو رہا ہے کہ اقبالؒ کا کلام نہیں، مگر یار لوگ ہیں کہ آگے سے آگے شیئر کئے جار ہے ہیں۔ فیس بک پر آئے روز اُس آڈیو کی پوسٹ لگی ہوتی ہے، جسے دیکھتے ہی غالب کے مذکورہ بالا شعر کی عملی صورت بننے کو دل چاہتا ہے، اپنی سی کوشش کرکے اُس کی تردید تو کر دی جاتی ہے، مگر برائی کو پھیلنے سے روکنا کارِ فرہاد سے کم نہیں۔ لکھ دیتے ہیں، خدا کے واسطے علّامہ پر رحم کریں، اُن کے چاہنے والوں کو بھی نہ تڑپائیں، مگر معافی ہے کہ ملنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ نہ جانے علّامہ اقبالؒ کے خلاف یہ سب کچھ کسی سازش کے تحت ہو رہا ہے، یا اُن کے چاہنے والے ہی اُن کی توہین پر آمادہ ہیں؟

جواب دیں

Back to top button