لفظ’’اقلیت‘‘اور علماء کا موقف

مولانا محمد وقاص حیدر
یہ روداد ہے آل پارٹیز کانفرنس کی جو 28اکتوبر کو تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان کے زیر اہتمام لاہور میں ہوئی۔اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز صادق نے 27ستمبر 2023ء کو منعقد ہونے والے اجلاس میں بین المذاہب کے کارڈ کو استعمال کرتے ہوئے ایک خطرناک سازش کے تحت آئین پاکستان میں لفظ ’’اقلیت‘‘ کو متروک کرنے کی بات کر کے فتنہ قادیانیت کو سرعام پرموٹ کرنے کا اعلان کیا ہے جو کہ نہایت ہی خطرناک حرکت ہے۔ یاد رہے کہ اس کونسل میں دین سے تعلق رکھنے والے لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں جس وجہ سے فی الفور قبلہ ایاز صاحب کی اس حرکت پر نوٹس نہ لیا جاسکا لیکن علماء کے حلقے میں جب بات پہنچی تو تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان کے کنوینر حاجی عبداللطیف خالد چیمہ نے تمام مذہبی جماعتوں کو اس طرف متوجہ کیا اور آل پارٹیز کانفرنس لاہور میں منعقد کی جس میں پروفیسر خالد شبیر احمد،حاجی عبداللطیف خالد چیمہ،مولانا عبدالرؤف فاروقی،مولانا عبدالرؤف ملک، لیاقت بلوچ، مولانا محمد امجد خان،سردار محمد خان لغاری، مولانا ابتسام الٰہی ظہیر،مولانا محمد الیاس چنیوٹی، ڈاکٹر محمد امین،مولانا محمد مغیرہ، میاں محمد اویس، مولانا محمد شاہنواز فاروقی، مولانا اشرف طاہر، حافظ عبدالغفار روپڑی،حافظ حسین احمد، مبشر عارف، سید عطاء المنان بخاری، سردار محمد خان لغاری، سیف اللہ خالد، مفتی شاہد عبید، مولانا مجیب الرحمن انقلابی، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، قاری رفیق وجھوی ،قاری محمد قاسم بلوچ، مولانا محمد اسامہ عزیر،علامہ ممتاز اعوان،نیاز احمد بنگلانی، محمد قاسم چیمہ، حافظ محمد سلیم، محمد شفیق سحر و دیگر نے شرکت کی اورخطاب کیا بعد ازاں اس کانفرنس جو اعلامیہ دہرایا گیا وہ پیش خدمت ہے۔
متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان کی دعوت پر مختلف مکاتب فکر اور دینی جماعتوں کے سرکردہ راہنماؤں کے مشترکہ اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل کے 234ویں اجلاس جو 27ستمبر 2023ء بروز منگل بوقت صبح 10بجے دفتر کونسل اسلام آباد میں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل جناب ڈاکٹر قبلہ ایاز کی زیر صدارت ہوا۔ اس کے اعلامیہ کی شق10 میں یہ کہا گیا کہ ’’دنیا میں نئی ابھرتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر اور مختلف شناختوں کے ساتھ منسلک افراد کی تعداد میں نقل مکانی اور نئے ملکوں میں آباد ہونے کی وجہ سے اب عالمی طور پر لفظ’’اقلیت‘‘ متروک ہوتا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے ضرورت اس امر کی ہے کہ لفظ’’اقلیت‘‘ کو اب ترک کر دیا جائے‘‘اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ اقدام اسلامی تعلیمات کے منافی اور دستوری تقاضوں سے انحراف کے ساتھ ساتھ مسلم انسانی اور شہری حقوق سے بھی متصادم ہیں۔آل پارٹیز کانفرنس کا مشترکہ اجلاس اس کی بھرپور الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں سیاسی بنیادوں پر علماکرام کی تعیناتی کی بجائے قابلیت کی بنیاد پر جید علماء کرام کو اس کا ممبر بنایا جائے تاکہ یہ کونسل اسلامی اصولوں کے مطابق فیصلے کر سکے۔اس کانفرنس کے اعلامیہ میں چند شقیں جو بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں۔
(1)اسلامی نظریاتی کونسل آئین کی اسلام آئیزیشن کرنے کے لیے بنایا گیا ایک آئینی ادارہ ہے پبلک پلیٹ فارم نہیں لہٰذا کونسل غیر رکن اسلامی شریعت او رفقہ کے ماہرین کو مشاورت کے لیے بلا سکتی ہے لیکن غیر مسلم رہنماؤں کو بلانے کا کوئی جواز نہیں بلکہ آئینی کردار سے تجاوز ہے یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
(۲) غزہ کی تازہ ترین صورتحال پر یہ اجلاس ملک بھر کی دینی و سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ فلسطین کے نہتے مسلمانوں کی اخلاقی، مالی اور عسکری مدد کریں۔ اس کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے جو عالم اسلام کی جید مذہبی اور سیاسی شخصیات سے روابط قائم کر کے او آئی سی کو فلسطین کے قضیہ کے مستقل حل کی کوئی راہ نکالنے پر آمادہ کرکے اسرائیل کی حالیہ جارحیت کو روکنے کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔
(۳)یہ اجلاس ملک کی سیاسی مذہبی اور عسکری قیادت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ملک میں افراتفری بے چینی کے خاتمے اور معیشت کی بحالی کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں تاکہ ملک معاشی طور پر مستحکم ہو سکے۔ اس سلسلے میں ڈالر کی ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ کے خاتمے کے لیے بارڈرز اور ائرپورٹ پر سخت انتظامات کیے جائیں۔ عالمی مارکیٹ کے مطابق پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والے ریلیف کو عوام تک پہچانے کے لیے انتظامات کیے جائیں، معیشت کی بحالی کے لیے تاجر برادری کوخصوصی مراعات دی جائیں۔ ضلعی سطح پر پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال کیا جائے تا کہ حقیقی معنوں میں عوام کو ریلیف مل سکے۔
(۴) ’’لہور لہور اے فیسٹول28اکتوبر تا 12نومبر‘‘ منعقد کیا جا رہا ہے، جو 16دن مسلسل جاری رہے گا،جس میں ملک بھر سے گلوکار آکر پرفارمنس کریں گے۔ فلسطین کے نہتے مسلمانوں کا جس طرح قتل عام جاری ہے، ان دنوں میں ان کی شہادتوں پرآواز بلند کرنے کی بجائے اسلامی تہذیب کے برعکس موسیقی کے پروگرام کا حکومتی سرپرستی میں ہونا افسوس ناک امر ہے۔موجودہ اجلا س اس کی بھرپور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت پنجاب سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس پروگرام کو فی الفور منسوخ کیا جائے۔ بعد ازاں کانفرنس میں چند قرار دادیں پیش کی گئی وہ بھی قابل ذکر ہیں، جن کی تمام مکاتب فکر کے سرکردہ رہنماؤں نے حمایت کا اعلان کیا۔
(1)موجودہ اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے لفظ ’’اقلیت‘‘ کے خاتمے کی بھرپور مذمت کی جاتی ہے۔
(2) اسلامی نظریاتی کونسل کے لیے لازم ہے کہ اپنے آئینی کردارتک محدود رہے بلا جواز غیر مسلم نمائندوں کو بلانے کا سلسلہ فی الفور بند کیا جائے۔
(3)غزہ کی صورتحال پر عالم اسلام کی خاموشی پر بھی افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے۔
(4)تعلیمی اداروں میں حفاظ کرام کو ملنے والے 20نمبر کے خاتمے پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے۔
(5)اوآئی سی کو نشستند،گفتند اور برخاستند کی بجائے عملی کام کرنا چاہیے۔
(6)ملک میں جاری افراتفری بے چینی کے خاتمے اور معیشت کی بحالی کے لیے سیاسی اورمذہبی قائدین اپنا اپنا کردار ادا کریں ۔