ایڈیٹوریل

دہشت گردی کا خاتمہ اور قومی یکجہتی

وطن عزیز میں دو روز کے دوران تین دہشت گردی کے تین بڑے واقعات نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ دہشت گردمنظم منصوبہ بندی کے ساتھ سکیورٹی فورسز اور دفاعی املاک پر حملہ آور ہوئے لیکن جوابی کارروائی میں جہنم واصل ہوئے، دنیا کی بہترین فوج پر حملہ آور ہونا قطعی آسان نہیں لہٰذا وہی لوگ ایسی ہمت کرسکتے ہیں جو باقاعدہ تربیت یافتہ ہوں اور اُن کے پیچھے ایسے دماغ بیٹھے ہوں جو ایسی منظم منصوبہ بندی کرسکتے ہوں۔ لہٰذا سکیورٹی فورسز اور عوام ِ پاکستان کی جنگ اُن دشمنوں سے ہے جو سرحد پار سے بھی حملہ آور ہوتے ہیں اور ان کے تربیت یافتہ دہشت گرد عام شہریوں کے لبادے میں رہتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں۔ لہٰذا اِن دشمنوںکی کمین گاہوں تک پہنچنا اور انہیں جہنم واصل کرنا انتہائی مشکل کام ہونے کے باوجود تین دہائیوں سے پاک فوج اوراِس کے ذیلی ادارے کررہے ہیں۔ جب سیاسی قیادت متحد ہوئی تو قوم بھی دہشت گردوں کے خلاف متحد نظرآئی لہٰذا ہم نے ستر ہزار سے زائد جانیں قربان کرکے دہشت گردوں کو اِس جنگ میں شکست دی مگر اب فوری طور پر ضرب عضب مؤثر اقدام ہے، فوج اور فوج کے ذیلی اداروں کو جہاں جہاں دہشت گرد موجود ہیں، ضرب عضب کو وہاں تک لے کے جانا ہوگا، اس سے دہشت گردوں کے بڑھتے قدم رکیں گے اور وہ منتشر ہونے کی وجہ سے کمزور بھی ہوں گے اور ان کے آئندہ کے منصوبے اور عزائم بھی خاک میںمل جائیں گے، اور منظم آپریشن کے ذریعے ان کا قلع قمع بھی ہوتا رہے گا، مگر دہشت گردوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اشد ضروری ہے کہ اِن کی نرسریوں کو ختم کیاجائے اور جو طاقتیں انہیں منظم کرکے دہشت گردی کے لیے روانہ کرتی ہیں ان کا بھی دائمی بندوبست کیا جائے تاکہ آئندہ دہشت گردی پنپ نہ سکے۔ اسی لیے فوراً آپریشن ضرب غضب کی حالت میں واپس آنا چاہیے اور قوم کو پوری طاقت کے ساتھ سکیورٹی فورسز کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے تاکہ جلد ازجلد ہم اِس عفریت کو بوتل میں بند کرسکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی سے پاک ہوکر ہی پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔مگر طویل المدت حکمت عملی پر یکسوئی سے عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے ، لیکن افسوس کہ ہم اِس کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ خطے کی صورت حال ایک طرف، پڑوسی ممالک کے رویے اور وہاں کے معاملات دوسری طرف، مشرق وسطیٰ اور روس، یوکرین جنگ کے نتائج ایک طرف، اسرائیل اور فلسطین کا معاملہ مگر ہماری سیاسی کج بحثی اور سیاسی کھینچاتانی دوسری طرف۔ عجیب صورت حال ہے، حالات کا ادراک کرنے کی صلاحیت نہیں ہے یا پھر جان بوجھ کر ہم کبوتر کی طرح بلی کے سامنے آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ دہشت گرد یکے بعد دیگرے بڑی کارروائیاں کرکے قوم کے بیٹوں کو خون میں نہلا رہے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کا
حصہ بنے ہمارے جوانوں کے جنازے گھروں پر پہنچ رہے ہیں مگر افسوس کہ سیاست دان اپنے مسائل میں اُلجھے ہوئے ہیں بلکہ وہ مسائل بھی نہیں ہیں اُن کی ذات سے جڑے معاملات ہیں، پس ترجیح ملک و قوم اور امن و امان نہیں تو پھر کیا ہے مگر افسوس ہی تو کیا جاسکتا ہے، دنیا بھی دیکھتی ہوگی کہ ہماری افواج دہشت گردوں کے ساتھ لڑ رہی ہے اور ہم آپس میں۔ مگر کیا کیا جائے؟ دہشت گردی کو ختم کرنے میں فوج کا کردار بہت اہم ہے اور فوج کی قربانیاں بھی بے شمار ہیں مگر فوج اکیلے یہ کام نہیں کرسکتی، نہ ہی تمام تر ذمہ داری کا بوجھ فوج کے کندھوں پر ڈالنا چاہیے ،کیونکہ فوج سرحد پار سے بھی حملہ آوروں کے سامنے کھڑی ہے اور وہ دشمن جو ہمارے درمیان موجود ہیں، ان کو بھی جہنم واصل کررہی ہے مگر اس سے فوج کی دفاعی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ مسئلہ کے حل میں اگر 20 فیصد کردار فوج کا ہے تو 80 فیصد ذمہ داری سویلین انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے ، جوازخود ذمہ داریوں کا ادراک کرنے کی بجائے حکام بالا کے احکامات کی منتظر رہتی ہے ۔پچھلے کئی ماہ سے کم و بیش ہر روز ہی پاک فوج کی جانب سے دہشت گردی کی روک تھام اور دوسری طرف سے دہشت گردوں کے ہاتھوں رونما ہونے والی کارروائیاں منظر عام پر آتی ہیں تاہم دہشت گردی کے بعض واقعات ایسے ہولناک ہوتے ہیں جو پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں، جیسے واقعات حالیہ دو دنوں میں رونما ہوئے ہیں۔ دشمنوں نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کواپنا ہدف بنارکھا ہے اور یہیں زیادہ واقعات ہوتے ہیں اسی لیے استدعا ہے کہ دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں یہ تیزی بہرحال دہشت گردی کے خلاف کارروائی کو آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کی طرح زیادہ موثر اور ہمہ گیر بنانے کا تقاضا کرتی ہے، کیونکہ انہی کے ذریعے ماضی قریب میں دہشت گردی کا قلع قمع ہوا تھا، پھر فوجی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ دہشت گردی میں ازسرنو اضافے کے اسباب کا تعین اور تدارک بھی لازمی ہے تاکہ مسئلہ جڑسے ختم ہو۔ عام انتخابات کے اعلان کے بعد دہشت گردی پر جلد ازجلد پوری طرح قابو پالینا اور بھی ضروری ہوگیا ہے تاکہ ملک میں امن و امان کی صورت حال قابو میں رہے اور کوئی ناخوش گوار واقعہ رونما نہ ہو اور جو بھی منتخب حکومت آئے وہ روایتی سیاسی کاموں میں اُلجھنے کی بجائے معیشت اور دہشت گردی کو اولین ترجیح بناکر اِن کی جانب متوجہ ہو کیونکہ معیشت تبھی ٹھیک ہوگی جب حکومت کی معاشی پالیسیاں ٹھیک ہوں گی اور بیرون ملک سے سرمایہ کار آئیں گے مگر تبھی، جب ملک میں امن و امان ہوگا، بم پھوٹیں گے اور نہ ہی سکیورٹی فورسز پر حملے ہوں گے اور امن وامان کے حوالے سے غیر یقینی نہیں ہوگی۔ اس لیے معاشی اصلاحات اور دہشت گردی کا خاتمہ سیاسی قیادت کی اولین ترجیح رہنا چاہیے، دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں معاشی سرگرمیاں بھی عروج پر ہوں اور دہشت گردی بھی، ماضی قریب میں دیکھیں تو یہاں جتنی صنعتیں دن رات چل رہی تھیں، اب ان کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور صنعت کار ہماری معاشی پالیسیوں اور امن و امان کی صورت حال سے خوف زدہ ہوکر یہاں سے دوسرے ملکوں میں جابیٹھے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button