گریٹر اسرائیل کا ناقص تصور
ایم یوسف بھٹی
(گذشتہ سے پیوستہ)
نصاریٰ کسی بنیاد پر نہیں ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہود کسی بنیاد پر نہیں ہیں، حالانکہ وہ سب(ایک ہی) کتاب پڑھتے ہیں“۔ یہود و نصاریٰ ایک ہی کتاب کے پڑھنے والے ہیں، تورات کو وہ بھی مانتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں۔ اس کے باوجود یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ کی کوئی حقیقت نہیں، یہ بے بنیاد ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودیوں کی کوئی حقیقت نہیں، کیونکہ ان کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ تو ان کے درمیان جو دشمنی اور بیر چلا آ رہا تھا یہ اسی کا ایک مظہر ہے کہ عیسائیوں نے مسلمانوں کے ساتھ مصالحت کے وقت یہ شرط رکھوائی کہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام کی یہودیوں کے ہاتھوں مصلوبیت اور جرمنی کے نازی ہٹلر کا یہودیوں کی”ہولوکاسٹ“ کے زریعے نسل کشی بھی ایک اندوہناک ترین انسانی تاریخ ہے جس کا ازالہ جنگ عظیم دوم کے بعد مغربی اقوام نے جدید اسرائیل کو عرب مسلمان ممالک کے عین درمیان آزادی دے کر مذہبی منافرت کو گہرا کرنے کی کوشش کی۔قرآن پاک کی اجتماعی فکر واضح طور پر انسانیت افروز ہے۔ قرآن پاک کی اجتماعی فلسفہ اور مدعی ہی انسانیت سے بلا رنگ و نسل اور مذہب کی تفریق کے بغیر تمام بنی نوع انسانوں سے محبت کرنے پر مبنی ہے جس کا ثبوت نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہودیوں سے میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ کر کے دیا جبکہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ آپ ایک مشرکہ کے گھر اس کی عیادت کے لئے گئے جو آپ پر کوڑا پھینکا کرتی تھی۔ ایک واقعہ کے مطابق آپ رحمت العالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک یہودی کی خدمت اسے مسجد نبوی میں بلاکراور 7بکریوں کا دودھ پلا کر کی۔
قرآن پاک میں ایک آیت کا ترجمہ ہے کہ، دین میں جبر نہیں ہے۔ اسی طرح ایک حدیث مبارکہ موجود ہے جس کا ترجمہ ہے کہ تمام عبد (بنی نوع انسان) بھائی بھائی ہیں۔ اس حدیث کے مطابق نہ صرف یہودی و نصاریٰ ہم مسلمانوں کے بھائی اور ایک آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں بلکہ اس میں دنیا کے وہ تمام انسان بھی شامل ہیں جو اللہ کو بھی نہیں مانتے ہیں۔ اگر مسلمان علماء و مبلغین مشرکوں، لادین یا غیر مذہبوں وغیرہ سے نفرت اور تعصب کا پرچار کریں گے تو انہیں وہ اسلام لانے کی تبلیغ کس بنیاد پر کریں گے، کیونکہ اسلام تو پھیلا ہی اولیاء اللہ اور صوفیائے کرام کے حسن اخلاق اور انکے بلاتفریق انسانی خدمت کے جذبے سے ہے؟
اہل اسلام کے کچھ مکاتب فکر حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول اور امام مہدی کی آمد کو بھی قیامت سے پہلے کفار سے آخری جنگ و جدل اور معرکہ ہند وغیرہ سے جوڑتے ہیں بلکہ اس کی تبلیغ وہ عقیدہ کی بنیاد پر باقاعدہ زور شور سے کرتے ہیں۔
اہل کتاب یہودی خود کوبنی اسرائیل کہتے ہیں جن میں قریباً تمام انبیاء مبعوث ہوئے۔ اس کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے کہ انبیاء کی اکثریت اسرائیلی سرزمین پر اتری جس کے باشندوں کو اللہ تبارک و تعالی نے من و سلویٰ جیسی نعمتوں سے نوازا۔ لہٰذایہودی خود کو دوسری قوموں سے افضل سمجھتے ہیں۔ جب سے اسرائیل وجود میں آیا ہے یہودیوں نے اپنی ذہانت اور تعلیم کا سکہ بھی منوایا ہے۔ دنیا کے 80% نوبل پرائز یہودیوں نے حاصل کیے۔ دنیا کا نمبر ون سائنس دان البرٹ آئن سٹائن یہودی النسل تھا۔ یہودیوں کے پاس ورلڈ میڈیا کا کنٹرول ہے اور وہ اور معاشی طور پر اتنے طاقتور ہیں کہ جس کا خود امریکہ بھی مقروض ہے۔
اس سلسلے میں حیرت انگیز بات یہ ہے یہودیوں کے”گریٹر اسرائیل“ کے تصور کی خود مسلم مفکرین نے اشاعت و ترویج کی ہے بلکہ کچھ مصنفین تو احادیث کا حوالہ دے کر مشرق وسطیٰ کے وسط میں ”عظیم اسرائیل“ کے قیام کی پیش گوئیاں کرتے رہے ہیں اور کرتے ہیں جس کے بعد ان کے خیال میں ”خراسان“ وغیرہ سے مجاہدین اٹھیں گے جو ان یہودی و نصاریٰ سے جنگ کر کے ان کا خاتمہ کریں گے۔
یہ وہ پس منظر ہے جس میں یہودی اور عیسائی دنیا ماضی کے اپنے سارے اختلافات بھلا کر مسلمانوں کے خلاف ایک ہو چکی ہے۔ امریکہ کا نیو ورلڈ آرڈر مغربی دنیا کی اسلام اور مسلمانوں سے اسی تاریخی مخاصمت و نفرت کا شاخسانہ ہے جس کی روشنی میں پہلے اسرائیل نے 6جون 1967 کو صرف 6روزہ جنگ میں مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا جو 7ستمبر کے حماس کے حملے کے بعد آج بھی جاری ہے۔
یہ مسلمانوں اور یہودی و نصاریٰ کے درمیان ایسی خوفناک جنگ ہے جو حالیہ اسرائیل فلسطین جنگ کی صورت میں خطرناک ترین شکل اختیار کرتی جا رہی ہے کہ جس میں ایک اسرائیلی کے بدلے دس فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کی جاری ہے۔ شاید یہ پہلی ”تہذیبی جنگ“ شروع ہو چکی ہے، جو اسرائیل اس ظالمانہ اورانسانیت کش انداز سے لڑ رہا ہے کہ جس سے امریکہ کے سابق یہودی وزیر خارجہ اور نیو ورلڈ آرڈر کے خالق ہنری کسنجر کے الفاظ یاد آتے ہیں، جنہوں نے کہا تھا کہ”اسلام انسانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ اور مسلمان ایسے سانپ ہیں کہ انہیں بلوں سے نکال نکال کر مارا جانا چاہیے۔
نفرت اور انتقام کی تبلیغ کچھ انتہا پسند مسلمان تبلیغیوں اور اس کے لادین دشمنوں نے مل کر کی ہے۔ ان دونوں میں یہودی اور مسلمان بالکل آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ اسرائیل طاقت کے نشے میں چور ہے۔ وہ 2000اسرائیلیوں کے بدلے قریباً 10000ہزار فلسطینی شہری قتل کر چکا ہے۔ وہ گھروں، مسجدوں اور ہسپتالوں پر عورتوں، بوڑھوں، بچوں اور موت کے منہ میں سسکتے زخمیوں پر بمباری کر کے جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے، اقوام متحدہ نے جنگ بندی کی قرار داد منظور کی اور مغرب میں اس کے خلاف مظاہرے بھی ہو رہے ہیں مگر اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے کیونکہ امریکہ اور برطانیہ سمیت پورا یورپ اس کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اس جنگ میں مشرق وسطیٰ اور دنیا تیسری عالمی جنگ سے سے بچ بھی گئی تو جو گانٹھیں گھاٹے کا سودا کرنے والے انسان نے ہاتھوں سے دی ہیں اب اسے منہ سے کھولنی پڑیں۔ یاد رکھیں مذہب کی من مرضی کی جیسی بھی تشریح کر لیں دین اسلام امن اور سلامتی کا نظام ہے یہ ایسے انتقام و نفرت اورانسانی نسل کشی کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اگر دین اسلام کی یہ تفہیم خود مسلمانوں کو سمجھ نہیں آئے گی تو دنیا اسلام کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ جبکہ دیگر الہامی مذاہب نسرانیت، یہودیت اور عیسائیت پہلے ہی سیکولرازم یعنی (لادینیت) کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ یقینا اگر کبھی روئے زمین پر انسانیت نہ رہی یا مذہب کا مکمل خاتمہ ہوا تو اس بربادی میں گریٹر اسرائیل کا یہ تصور سرفہرست ہوگا۔