عدمِ برداشت کا رجحان اور ہمارے تعلیمی ادارے

ڈاکٹر محمد حسنین
معاشرے میں مختلف اقسام کے افراد پائے جاتے ہیں، جیسے مذہبی معاشرہ، کمیونسٹ معاشرہ وغیرہ، لیکن اکثریت کی وجہ سے معاشرے کو خصوصی طرح منسلک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جیسا کہ روس کو کمیونسٹ معاشرہ کہا گیا، اور ایران کو مذہبی معاشرہ کہا جاتا ہے۔ اس کے باوجود، ان معاشروں میں مختلف فکری اور مذہبی گروہ موجود ہوتے ہیں۔ غالب اکثریت کی وجہ سے ان کی تصویر زیادہ آمنے سامنے ہوتی ہے، اور ان کی فکریات اور رائے میں اقتدار بھی رہتا ہے۔ ایسی معاشرتوں میں معاشرتی میل جول، رواداری، تحمل، اور انصاف کی باتیں زیادہ موزوں ہوتی ہیں، جو معاشرتی امن اور سکون کی بنیاد ہوتی ہیں، اور یہی چیزیں پاکستانی معاشرے میں کم ہی ملتی ہیں۔
آج ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں، بادی النظر میں اس کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال،حیرت انگیز سائنسی ایجادات،تیز رفتار ترقی اور چکا چوند نگاہوں کو خیرہ کرنے کے لیے کافی ہے۔آج کی ترقی یافتہ دنیا نے اگرچہ جسم و جاں کی خواہشات و مطالبات کی تکمیل کا سارا سامان مہیا کرلیا ہے۔یہاں تک کہ زمین وآسمان کو مسخر کر لیا ہے۔چاند پر قدم رکھ دیا ہے اور ستاروں پر کمندیں ڈال دی ہیں۔ مگر افسوس کے ساتھ پاکستانی معاشرہ میں بالخصوص اور تمام دنیا میں بالعموم ہمارے سماجی روئیے ہمارے لیے وبالِ جان بن چکے ہیں۔رواداری،اخلاص، تحمل، برداشت، صبر، عفوودرگزر،عدل و انصاف جیسی صفات جو معاشروں اور حضرت انسان کی فلاح اور خیر کی ضامن ہیں۔عنقا ہوتی جا رہی ہیں۔ ماضی کے مقابلہ میں آج کے انسان کے پاس جدید سہولیات کی مقدار زیادہ ہے۔مگر ماضی کا انسان بہتر تھا۔آج کا انسان جس طرح کی زندگی بسر کر رہا ہے اس میں ان تمام اخلاقی قدروں کا فقدان ہے جو ماضی کے انسان کا خاصہ تھیں۔
تعلیمی اداروں میں تنقیدی اور منفی سوچ کا اجراء ہو رہا ہے، اور اس موضوع پر اجاگری ضروری ہے۔ خاص طور پر اس معاملے میں مختلف ورکشاپ، سیمینار اور کانفرنس کا ہونا ضروری ہے۔ تا کہ طالب علموں کو احسن طریقے سے اپنے خیالات دوسروں کو بتانے آنا چاہیے۔ جیسا کہ حال ہی میں ایک جامعہ کے طالب علموں نے ایک ملک کے وزیراعظم سے سوالات پوچھے جو کہ سننے میں اچھے نہیں لگ رہے تھے حالانکہ وہ زیادہ اچھے انداز میں پوچھے جا سکتے تھے۔ اس وقت کی معاشرت میں ہمیں اپنی تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمیں سوچ کی تبدیلی کی سمجھ کو فروغ دینے کی طرف قدم اٹھانا ہوگا۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں انتہائی محنت کرنے والے طلباء پڑھتے ہیں، جو آئندہ کے لیے پاکستان کی روشنی کو چمکانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ طلباء ہماری تعلیمی انتہائیت کی پیش گوئی ہیں اور ہمارے ملک کی بنیاد کو مضبوط کرنے کی راہوں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔
ماحول کی بنا پر تعلیمی اداروں کی تنقیدی روایت اور منفی سوچ کی جگہ مثبتیت کا اجراء کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں اپنے طلباء کو سوچنے کی ترغیب دینی چاہیے، کہ وہ نئے اور جدید تجربات کو تلاش کریں، اور خود کو تعلیمی راہوں کی تلاش میں پائیں۔ تعلیمی ادارے اپنے اساتذہ کو تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی سمجھ دینے کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنے طلباء کو انصاف، انسانیت، اور اصولوں پر تعلیم دینے کے لیے تیار کرنا چاہیے تاکہ وہ منفی سوچ اور تنقید کے بجائے ایک منفعل اور اجتماعی طور پر فائدہ مند فرصت کو پہچانیں۔ تنقیدی تبادلے کی جگہ ہمیں ایک دوسرے کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے طلباء کو تعلیمی مقاصد کی سمجھ دینی چاہیے اور انہیں ان مقاصد تک پہنچنے کے لیے مدد فراہم کرنی چاہیے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تعلیمی اداروں کو ایک بہتر تعلیمی تجربہ فراہم کریں، جہاں منفی سوچ کی بجائے تعلیمی منصوبوں کو بڑھایا جائے۔ ہمیں اپنے طلباء کو تعلیمی انتہائیت کی طرف رجوع کرانا چاہیے تاکہ وہ انصاف، انسانیت، اور اصولوں کی قدر کریں اور انہیں پاکستان کے بنیاد کو مضبوط کرنے کی راہ میں مدد فراہم کریں۔
سیاسی رہنماؤں کے ساتھ تعلقات بنانے اور معقول سوالات پوچھنا ضروری ہوتا ہے، تاکہ ماحول متوازن رہے اور عوام کی تعلیمی تربیت میں بہتری آ سکے۔ اس سیاق میں تعلیمی اساتذہ کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ وہ طلباء کو اخلاقی اور معقول تبادلے کی اہمیت سمجھاتے ہیں۔ اساتذہ کی طرف سے بنائی گئی تربیتی پالیسیاں اور ماحولیات طلباء کو ایسے روایات کی طرف متوجہ کرتی ہیں جو بات چیت کو ترقی دینے کی سمجھ رکھتی ہیں۔ اساتذہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے طلباء کو احترام اور فکری تبادلے کی قدر دیں۔
طلباء کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ تعلیم کے ذریعے وہ معقول سوالات پوچھ کر سیاسی اور معاشی تجربے کی بات چیت کی ترویج میں کیسے مددگاری کر سکتے ہیں۔ وہ اس موقع کو اپنے علمی اور تجرباتی ذرائع کی روشنی میں استعمال کر کے اپنے وطن کی ترقی اور تربیت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ آگاہی بڑھا سکتے ہیں کہ کیسے احترام اور فکری تبادلے کی بنیاد رکھ کر متعلقہ سوالات پوچھنے اور تبادلے کی سمجھ بوجھ کا فروغ کر سکتے ہیں۔آج پاکستانی معاشرہ جس عدم برداشت کی زندگی بسر کر رہا ہے اس کی مثال ہمیں کبھی ماضی قریب میں نظر نہیں آتی،یہ عدم برداشت صرف سیاسی اداروں یا مذہبی حلقوں میں ہی نظر نہیں آئے گا بلکہ آپ کی پوری قوم میں یہ عدم برداشت کا رواج اظہر من الشمس ہے۔وجوہات جو بھی ہوں مگر حقیقت حال یہی ہے۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ انسان عہدِ جاہلیت کی طرف لوٹ رہا ہے یا ہم ایک جدید عہد جاہلیت سے گزر رہے ہیں۔
معاشرے افراد سے مل کر بنتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ رب کائنات کے رسول ﷺ نے فرد کی اہمیت کااداک کرتے ہوئے سب سے پہلے فرد ہی کو توجہ کا مرکز بنایااور تزکیہ نفس پر خصوصی توجہ دی،آج کا فرد شعوری گمراہی میں مبتلا ہے، فکری کمزوری نے اس کے اندر ان تمام اخلاقی قدروں کو ختم کردیا ہے جو کبھی پاکستانی معاشرہ کا وصف ہوتی تھی۔ہم کو ایک قوم بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ تزکیہ نفس تو انسانوں اور افراد کا ہوتا ہے ایسے انسان کا نہیں جس کے اندر حیوانی صفات انسانی صفات ست کم ہوں۔اصلاحِ احوال کے سلسلہ میں کی جانے والی کوششوں میں عرب کے جاہل معاشرے کی مثالیں قابلِ تقلید ہیں۔جہاں کبھی پانی پلانے پر،گھوڑا آگے بڑھانے پر تلواریں نکل آتی تھیں، اور خون کی ندیاں بہ جاتی تھیں۔انہیں ضبطِ نفس کا خوگر بنا دیا۔برداشت جسے عربی میں تحمل کہا جاتا ہے اس کے لغوی معنیٰ بوجھ اٹھانے کے ہیں۔یہ طبیعت کی وہ صفت ہے جس سے انسان میں قوت پیدا ہوتی ہے جس کے سبب وہ جوش،غضب،اشتعال،اور جذبہ انتقام کے باوجود انتقام پر قدرت رکھتے ہوئے عفو ودرگزر سے کام لیتا ہے اور اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے۔ایک وقت تھا کہ جب اخبارات میں کبھی کبھار وحشیانہ قتل کی کوئی خبر پڑھنے کو ملتی تھی۔انسانیت سوز واقعات صرف دیہی علاقوں میں رونما ہوا کرتے تھے کیونکہ ان میں ایک تو طاقت کا توازن چودھریوں اور وڈیروں جیسے لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔دوسرے دینی اور دنیاوی تعلیم بھی کم ہوتی تھی۔مگر اب یہ صورتحال ہمارے پورے پاکستانی معاشرہ میں سرایت کر چکی ہے۔اب صرف چولہا پھٹنے سے بہو جل کر ہلاک نہیں ہوتی بلکہ شہر میں سڑکوں پر سر عام مخالفین کو مار مار کر قتل کردیا جاتا ہے۔مختلف جماعتوں کے جلوس منفی رد عمل پر اتر آئیں تو مذہبی چار دیواری میں گھس کر انسانوں کو قتل کردیتے ہیں۔یہ سب کچھ کون کر رہے ہیں؟یہ عدمِ برداشت کن لوگوں میں ہے؟
اسلام نے مختلف عبادات کو فرض قرار دیا ہے جیسے نماز، روزہ، زکواۃ، اور حج وغیرہ۔ یہ تمام عبادات انسان کی برداشت اور ضبطِ نفس کی متقاضی ہیں اور ان کا مقصد انسان کو روحانیت اور اخلاقیت میں بڑھاوا دینا ہوتا ہے۔ ان عبادات کے ذریعے انسان کو اندری نجاہ، تواضع، اور توجہ کی تربیت دی جاتی ہے۔
اسلام کی تعلیمات کے تحت، ہمیں ایک دوسرے کو معاف کرنے کا عمل شروع کرنا چاہئے تاکہ معاشرے میں برداشت کی اہمیت کو دوبارہ زندگی ملے۔ یہ اہمیت والدین کے گھروں میں، اساتذہ کے درسوں میں، اور علماء کے خطبات میں بھی ترویج دی جانی چاہیے۔ جب کوئی ان تعلیمات کو اپناتا ہے اور اللہ کے ساتھ صدقہ جاریہ رشتہ قائم کرتا ہے، تو اسے کسی سے بدلہ لینے کی ضرورت نہیں رہتی، اور وہ ہر چیز کے ساتھ برداشتی رویے کا حامی بن جاتا ہے۔